جزیروں کے گیت
نانا کی لائبریری سے نکال کر لائی ہوئی ایک کتاب میں نے لکڑی کے ایک چھوٹے سے بکس میں رکھی ہوئی تھی۔ اس کتاب کو میں یہیں سے نکالتی، پڑھتی اور یہیں رکھ دیتی۔ یہ چھوٹی سی کتاب ایک طویل عرصے تک میرے ساتھ رہی۔ سرورق پر ہلکا نیلا آسمان بنا تھا۔ اس کے نیچے گہرا سبز سمندر تھا۔ تصویری سمندر پر ایک کشتی کی تصویر تھی جس کے دو سفید بادبان تھے۔ ان بادبانوں کے عقب میں سمندر میں ڈوبتا سورج تھا۔ڈوبتا اس لیے کہ اس تصویری سمندر کا رنگ بہت گہرا تھا۔ یہ تصویر بالکل سپاٹ تھی مگر مجھے ان بادبانوں میں ہمیشہ ہوا بھری دکھائی دی۔ کشتی سمندر پر ہچکولے کھاتی کسی ان دیکھے جزیرے کی طرف بڑھتی محسوس ہوئی جہاں پہنچنے تک سمندر کتنے ہی رنگ بدل لیتا تھا۔ کبھی سورج سمندر سے ابھر آتا اور اس کے سامنے پام کے درختوں کے چھدرے پتے دکھائی دیتے تو لگتا کہ ساحل کہیں قریب ہی ہے۔اس ساحل پر اترتے ہی، بلند پام دکھائی دیتے، کناروں پر ماہی گیروں کی کشتیاں یعنی ’سمپان‘ نظر آتیں۔ پام سے ادھر، دھان کے کھیتوں کے طویل سلسلے ملتے۔
ایک سادہ اور سپاٹ سر ورق میں زندگی بھرنے کا سارا کام اس کتاب کے اندر موجود شاعری نے کیا تھا۔اس شاعری نے ہی سمندر، دریا، جزیرے، دھان کے کھیت، سمپان، طوفان، محبت، جدائی، دوری۔۔۔ سب ایک تصویر میں سمو دیا تھا۔سید ضمیرجعفری مرحوم نے اس کتاب کا نام ’جزیروں کے گیت‘ رکھا۔ یہ ملایا اور جاوا کے گیتوں کے تراجم تھے۔کتاب 1954میں شائع ہوئی تھی اور اس کا مسودہ 1948میں تیار ہو ا تھا۔ جب کتاب میرے ہاتھوں میں آئی تو ملائشیا کو آزادی ملے بھی چاردہائیاں بیت چکی تھیں۔یہ نوے کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ ان گیتوں کے ساتھ وقت کی لہروں پر بہتے بہتے ایک دن میں ان گیتوں کی سرزمین پر پہنچ جاؤں گی۔کئی برس سے ان جزیروں کو دیکھنے کی کوئی باقاعدہ خواہش دل میں ابھری اور نہ زبان پر آئی۔ مگر ایک دن اچانک کوالالمپور میں ایک کانفرنس میں شرکت کا پروگرام بنایا اور جب ویزا ہاتھ میں آیا تو اچانک یہ بول دل میں لہرانے لگے۔
سرد پانی کی بے تاب چادر تلے، چھپ کے بیٹھی ہیں یوں کونپلیں دھان کی
جیسے ’سیلان گر‘ کی حسیں جھیل میں مدتوں کے حسیں راز سوئے ہوئے
جیسے جنگل کے نیلم میں پریوں کے دل، سہمے سہمے ہوئے، کھوئے کھوئے ہوئے
جیسے خوابوں میں تارے چمکتے ہوئے، جیسے دل میں تمنائیں انسان کی
سو کوالا لمپور کے اس سفر میں لنگکاوی کو بھی شامل کیا تا کہ ملایا کے جزیروں کا جو بلاوا گیتوں کے ذریعے مجھ تک آیا تھا، اس پر لبیک کہا جائے۔سید ضمیر جعفری نے ملایا کی زمین سے پھوٹی شاعری کا ترجمہ کیا۔ ملایا کے یہ روایتی گیت ملائی ’پنتون‘ کہلاتے ہیں۔ زیادہ تر پنتونوں کے پہلے اور چوتھے، اور دوسرے اور تیسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ ان پنتونوں میں تغزل بھی ہے اور فکر بھی۔ کہیں کوئی واقعہ بھی مل جاتا ہے۔ مگر اس تمام شاعری کی اپنی منفرد فضا ہے جس میں جز یرے، سمندر، بادبان اورپام کے جھنڈ ہیں، اورجہاں دھان کے کھیتوں، دریان(جسے ہم اب دوریان پڑھتے ہیں) اور ناریل کی خوشبو رچی بسی ہے۔
بھول جاؤں گی تمہیں، اس دن بھلا دوں گی تمہیں
ناریل کی شاخ سے خوشہ گرے دُریان کا
کوہساروں کی طرف مڑ جائے رخ طوفان کا
لوحِ دل سے خواب کی صورت مٹا دوں گی تمہیں
شاعری کا ترجمہ کرنا مشکل کام ہے۔ برصغیر کی شاعری میں ردیف اور قافیہ کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور موسیقیت اور غنائیت بھی ہوتی ہے۔ الفاظ اور خیال کا ترجمہ ہو سکتا ہے، مگرباقی لوازمات منتقل کرنا مشکل ہے۔کہتے ہیں شاعری میں جو چیز ترجمہ ہونے سے رہ جاتی ہے وہی شاعری ہوتی ہے۔ ضمیر جعفری کا دیباچہ بتاتا ہے کہ ملایا کے پنتون بھی یہی التزام رکھتے ہیں۔چراغ حسن حسرت کا پیش لفظ بتاتا ہے کہ پنتون، ہمارے لوک گیتوں یعنی ماہیا اور ٹپہ جیسی صنفِ شاعری ہے۔پھر شاعری کا شاعری میں ترجمہ تو اور بھی مشکل ہے۔ یہ ضمیر جعفری کا ہی کمال تھا کہ انہوں نے شاعری کا ترجمہ شاعری میں اس خوبی اور روانی سے کیا کہ کہیں اس شاعری پر ترجمہ ہونے کا گماں نہیں گزرتا۔ جبکہ نثر کے بیشتر تراجم پڑھ کر بھی جملے کی ساخت اور الفاظ کے درو بست سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ ترجمہ کی گئی نثر ہے۔
سبز پر والے کبوتر جنگلوں میں اڑ گئے
یہ اگر مانوس ہو جائیں تو پھر جاتے نہیں
اور اڑ جائیں تو ظالم لوٹ کر آتے نہیں
بحرِ بنگالہ کے بادل مڑ گئے تو مڑ گئے
کوالا لمپور سے ایک گھنٹہ پندرہ منٹ کا ہوائی سفر کر کے لنگکاوی پہنچا جاتا ہے۔ یہ سفر ہم نے ایک اے ٹی آر جہاز میں کیا جہاں ہوائی میزبان مختلف چیزیں اٹھائے انہیں بیچنے کا اعلان کر رہی تھی۔حتی کہ اس جہاز میں پانی بھی قیمتاً ملا۔یہ سفر پرلطف تھا۔ سارا سفر سمندر کے اوپرطے ہوا۔ سمندر کی حدودشروع ہوئیں تو بادل بھی دکھائی دینے لگے۔ جہاز آہستہ آہستہ اوپر اٹھتے ہوئے، بادلوں کی پہلی تہہ سے اوپر ہوگیا۔ سمندر کے سبز پھیلاؤ پر بکھرے ہوئے بادلوں کے سائے تھے۔ جہاز اور اوپر اٹھا تو بادلوں کو دوسری تہہ کے برابر اڑنے لگا۔ اب نظر میں بادلوں کی تین تہیں تھیں اور ان کے نیچے گہرا سبز سمندر۔ جب جہاز نے بادلوں کی تیسری تہہ کو بھی چیر دیا تو دور تک بادلوں کا روئی کی مانند سفید فرش بچھا نظر آنے لگا۔کچھ دیر بعد جہاز نے اترائی کی طرف پرواز شروع کر دی۔ اب بادلوں کی تہوں کو آہستہ آہستہ چیرتا ہوا جہاز لنگکاوی کی طرف بڑھنے لگا۔ ساحلی پٹی دکھائی دی اور پھر جہاز ائیر پورٹ پر اترا۔ لنگکاوی ایک چھوٹا سا خوب صورت شہر ہے۔ بہت صاف سڑکیں، سبزہ اور سڑک کے ساتھ ساتھ ساحل اور سمندر۔کوالالمپور اور لنگکاوی کو دیکھ کر یہ ضرور سمجھ میں آیا کہ سیاحت کے فروغ کے لیے اچھی سڑکیں، میٹرو بسیں اور ریل کاریں کتنی ضروری ہیں۔ کوالا لمپور کوئی بڑا شہر نہیں مگر اس میں تین مختلف طرح کی ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ ہوائی جہاز، ائیر پورٹ، عمارات اور سڑکوں نے جس احساس کو تھوڑا دور کر دیا تھا، بر لبِ سڑک پام کے بے شمار درختوں نے پھر اسی ماحول میں دھکیل دیا۔ دور تک پھیلا سمندر، ساحلی ریت اور لہراتے پام۔ پھر سے جزیروں کے گیت سنائی دینے لگے۔
جو دھارے میں ’سمپان‘ اپنی اوپر کے رخ پر کھے جائے
جو موجوں سے لڑ سکتا ہے، گردابوں میں پڑ سکتا ہے
طوفاں کے امنڈتے ریلے میں پتھر کی طرح گڑ سکتا ہے
وہ میری چُوڑی لے جائے اور اپنا خنجر دے جائے
ساحلِ سمندر پر واقع ہوٹل میں قیام تھا۔ سامان رکھا اور ساحل پر آگئے۔سمندر کی نمکین ہوا سے ملے تو پتا چلا کہ اب جنوب مشرقی ایشیا کے ان قدیمی علاقوں،’مجمع الجزائر ملایا‘ کے گیتوں سے براہِ راست ملاقات ہوئی ہے۔یہ تمام علاقے معتدل موسم کے علاقے ہیں۔ سارا سال آسمان، زمین اور سمندر ایک ہی رنگ میں رنگے رہتے ہیں۔ کبھی بھی بادل امنڈ آتے ہیں اور بارش گھنٹوں برستی ہے۔ جب تھمتی ہے تواجلی دھوپ اور حبس مل کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ساحل پر، سمندر ی پانی میں ٹہلتے ہوئے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حبس کی وجہ سے ہوٹل واپس چلے جائیں یا سمندر، ریت، پام اور سیپیوں کے سحر میں گرفتار رہیں اور سورج ڈوبنے تک یہیں ٹھہرے رہیں!
تنہا بیٹھی ساحل کے دلچسپ ترانے سنتی ہوں
اس ساحل سے کس ساحل تک لہریں جاتی آتی ہیں
ٹکراتی، چکراتی، ہٹتی پھٹتی، ملتی جاتی ہیں
ان کے نغمے سنتی ہوں اور اپنے موتی چنتی ہوں
ملائیشیا کے اس دورے نے مجھے میرے بچپن سے ملوا دیا۔ضمیر جعفری کی یہ کتاب’جزیروں کے گیت‘ جو میں کہیں رکھ کر بھول گئی تھی اب دوبارہ وقت کی دھول سے برآمد کی ہے اور اس کے ساتھ وقت گزار رہی ہوں۔کیا عمدہ ترجمہ ہے اور کیا شاندار شاعری ہے۔