رہنما
شفقت پدری میراث آدم ہے۔ اس عالمگیر سچائی سے انکار ممکن نہیں یقیناً ہر والد اپنی اولاد کیلیے شفقت اور محبت کا پیکر ہوتاہے لیکن میری بات اس احساس سے آگے ہے۔ میرے والد نہ صرف ایک شفیق باپ تھے بلکہ میرے غمگسار دوست،رہنما اور آئیڈیل تھے۔ جو میرے لئے ہر ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔حیف صد حیف کہ گزشتہ برس مورخہ 25 ستمبر 2018 کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور یوں مشکلات کی دھوپ میں ہمارے اوپر سایہ فگاں رہنے والیچھپڑ چھاؤں اٹھ گئی۔
ہم نے کبھی زندگی میں ان کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا مگر خداوندے ِقدوس کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مگر کچھ لوگ اپنی خدمات، سنگتوں اور خیالات سے اپنی شخصیت کا وہ تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ لوگوں کی محبتوں اور یادوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ان کی اپنی اولاد کے لیے پدرانہ شفقت اپنی جگہ لیکن ان کی شخصیت کیچند زریں پہلوؤں کا ذکر نہ کرنا بھیقرینِ انصاف نہ ہوگا۔ مرحوم گوجرانوالہ کے نواحی علاقہ تلونڈی موسی کے گاؤں بھٹی بھنگو میں پیدا ہوئے۔
مرحوم نے میٹرک تک تعلیم سینٹ جوزف ہائی سکول، سیٹلائیٹ ٹاؤن، گوجر انوالہ سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے لئے گورنمنٹ سائنس کالج گوجرانوالہ میں داخلہلیا۔ یہ وہ دور تھا جب اسٹوڈنٹ پولیٹیکس میں عدم برداشت اور تشدد کا رجحان فروغ پا چکا تھا۔ انہوں نے جمیعت طلبہ اسلام کے پلیٹ فارم سے تمام طلبہ تنظیموں کو متحد کرنے کی ٹھانی اور متحدہ طلبہ محاذ کی داغ بیل ڈالی ان کی کاوشیں ثمرآور ہوئیں اور وہ طلبہ تنظیموں کی نظر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر جمیعت طلبہ اسلام (پاکستان) کے صدر منتخب ہوئے۔ایک طرف اپنا تعلیمی کیریئر امتیاز کے ساتھ مکمل کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (پنجابی)اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اور بہاؤالدین زکریایونیورسٹی سے ایم اے(پولیٹیکل سائنس) کیا اور دوسری طرف تمام توانائیاں سٹوڈنٹ اتحاد پر مرکوز کردی۔ان کاوشوں کا اعتراف امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے ان کے انتقال پر جاری کردہ اس پیغام کی صورت میں کیا۔
جب وہ تلاش روزگار کے سلسلے میں محکمہ ملٹری اکاونٹس میں تعینات ہوئے تو اس وقت محکمہ کی کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی ایک مردہ گھوڑا تھی اور ممبران اپنے گھر کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے نہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے سوسائٹی کی انتظامیہ کمیٹی جوکہ اعلی افسران پر مشتمل تھی ان کی معاونت کرتے ہوئے سوسائٹی کو نہ صرفموثر بنایا بلکہ آج اس کا شمار لاہور کی بہترین آبادیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مولانا سمیع الحق(مرحوم) کی تدریسی خدمات سے متاثر ہو کر عملی سیاست کے لیے جمعیت علماء اسلام کا پلیٹ فارم منتخب کیا اور بطور عام کارکن،اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔اور نائب امیر(پاکستان) کے مقام تک رسائی حاصل کی اور تادمِ مرگ اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ ان کا انداز سیاست جداگانہ تھا۔
نہ ہی کسی عہدہ کی طمع کی اور نہ ہی کوئی مالی فوائد کے متمنی تھے ان کی سیاست کا محور عوامی خدمت، حقوق العباد کی تکمیل اور ان کا نصب العین معاشرتی اصلاح تھا۔ خدا پر یقین ان کی اصل طاقت تھا اور ایثار و قربانی ان کا وطیرہ تھا۔ مرحوم جہاں جہاں بھی گئے، ٹھہریمحبتوں کی داستان چھوڑ آئے۔ مرحوم خواتین کی مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے بہت بڑے داعی تھے۔ گوجرانوالہ میں اپنی رہائش گاہ واقع، سیٹلائیٹ ٹاؤن،اپنے آبائی گاؤں بھٹی بھنگو اور لاہور کینٹ میں اپنی سابقہ رہائش گاہ پر اعجازالقرآن جامعہ البنات کی برانچز کا قیام عمل میں لائیجہاں پرغریب بچیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کی تعلیم سے آراستہ کیا۔ ایکمحتاط اندازے کے مطابق ان ادارہ جات سے فارغ التحصیل تقریبا پچاس ہزار بچیاں نہ صرف فیض یاب ہوئیں بلکہ اس مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔
مرحوم وطن پرست تھے اور قوم کے بچوں کو اسلامی تعلیماتسے روشناس کرانا چاہتے تھے۔ اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے سٹار ایشیا ٹی وی بنایا اور اس میں رہنما کے نام سے ایک پروگرام کی میزبانی کیا کرتے تھے جس میں علماء ، مفکرین اور دانشوروں سے چنیدہ سوالات برائےِ آگہی کرتے تاکہ لوگحقیقی اسلامی ثقافت کو سمجھ سکیں۔میریوالد میریرہنما تھے۔ان کی حیات ہمارے لئے مشعل راہ تھی۔میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کے ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے تاکہ انکی روح کو سکون حاصل ہو اور خدمت انسانی کی جو شمع انہوں نے جلائی تھی اس کا شعلہ قیامت تک ماند نہ پڑے۔ میریاپنے تمامنے قارئین سے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لئے فقط دعائے¸خیر کی اپیل ہے۔