اقوام متحدہ کے 75 برس: کیا ہم وہیں کھڑے ہیں؟
اس ماہ کے آغاز میں اقوام عالم نے فاشزم کو شکست دینے کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ دوسری جنگ عظیم کا پس منظر ، کچھ ممالک کی جانب سے اپنے ذاتی مفادات کے لیے دوسرے ممالک کے خلاف جارحیت اخیتار کرنا تھا۔ اس جنگ کی ایک اور وجہ مضبوط عالمی اداروں کی غیر فعالی یا کمی تھی۔ اس جنگ سے دنیا کی قوموں نے بہت سے اہم سبق سیکھے جن کے نتیجے میں برداشت، کثیر الجہت پسندی اور عالمگیریت جیسے رجحانات پروان چڑھنے لگے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہوا اور ایسا لگا کہ دنیا میں اب دوبارہ فاشسٹ قوتیں سر نہیں اٹھائیں گی۔
ماہ ستمبر کے آغاز میں بہت سی خوش کن باتیں سامنے آئیں ایک مرتبہ پھر عہد و پیمان باندھے گئے کہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کو فروغ دیا جائے گا، کثیرالجہت پسندی کی حفاظت کی جائے اور انسانیت کو درپیش بڑے مسائل کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔ یہ سارا خوشگوار ماحول اس وقت بدمزہ ہوگیا جب صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی 75 ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کا آغاز کیا۔ انہوں نے سات منٹ کے خطاب میں گیارہ مرتبہ چین کا ذکر کیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ چین ان کے اعصاب پر سوار ہوچکا ہے۔ یہ اندرون ملک بڑھتے ہوئے داخلی انتشار کی وجہ سے تھا؟ وبا پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے تھا؟ یا آنے والے انتخابات میں ووٹروں کو متاثر کرنے کے لئے تھا؟ وجہ کچھ بھی ہو ان کے خطاب نے کورونا وائرس کے بعد ایک صفحے پر اکھٹی ہونے والی عالمی برادری کو منتشر کر دیا۔ آج دنیا کے مقتدر حلقوں کو یہ سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے کہیں کسی گول دائرے میں تو نہیں گھوم رہے۔
بنی نوع انسان کو درپیش بڑے چیلنجز میں ماحولیاتی تبدیلیاں، حیاتیاتی تنوع، غربت کا خاتمہ، توانائی کا بحران اور ناگفتہ بہ طبی سہولیات وغیرہ ہیں۔ ان کا مقابلہ اتحاد و یگانگت سے کیا جا سکتا ہے نہ کہ تحفظ پسندی اور یکطرفہ پسندی سے، اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پھنگ نے ایک اہم خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ نا انصافی کے خاتمے ، قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے ، تعاون کو فروغ دینے اور وبا کے بعد کے دور میں اقدامات پر توجہ مرکوز کرے۔انہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ چین ہمیشہ کثیرالجہتی کا عملی مظاہرہ کرنے والا ملک ہے۔ چین عالمی نظم و نسق کے نظام کی اصلاح اور تعمیر میں فعال طور پر حصہ لے گا ، اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دے گا۔ شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ 75 سال پہلے ، دنیا کے عوام خونی لڑائیوں سے گزرے اور دنیا نے اتحاد کے ذریعے فاشسٹ قوتوں کے خلاف عظیم فتح حاصل کی۔ یہ انصاف کی فتح اور عوام کی فتح ہے۔ پچھلی صدی کے پہلے نصف حصے میں ، اقوام متحدہ ان خوفناک جنگوں کے بعد وجود میں آئی تھی جن کا بنی نوع انسان نے دو بار تجربہ کیا تھا۔یہ ادارہ 75 سالوں کے غیر معمولی دور سے گزر چکا ہے۔ اب دنیامیں امن و ترقی کا ایک نیا باب کھل چکا ہے۔
اپنے خطاب میں صدر شی جن پھنگ نےادارے کو مزید فعال بنانے کے لئے چار تجاویز پیش کیں۔
پہلی انصاف کو برقرار رکھنا:بڑے اور چھوٹے ، تمام ممالک کا باہمی احترام اور مساوات کا قیام ، وقت کی اہم ضرورت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصول کےاولین تقاضے ہیں۔ ہمیں وسیع مشاورت ، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد کے اصول پر عمل کرنا چاہئے ، اور تمام ممالک کو مشترکہ طور پر عالمی سلامتی کو برقرار رکھنا چاہئے ، ترقیاتی ثمرات کو بانٹا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی آواز کو متوازن بنانا چاہیے جو زیادہ تر ممالک کے مفادات اور خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔
دوسرا قانون کی حکمرانی کو سختی سے نافذ کرنا: اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصول بین الاقوامی تعلقات کو قائم رکھنےکے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور بین الاقوامی نظم و ضبط کے استحکام کا ایک اہم سنگ بنیاد بھی ہیں ، جن کو بغیر کسی خوف و ہراس کے برقرار رکھا جانا چاہئے۔ مختلف ممالک کے تعلقات اور مفادات کو صرف نظام اور قواعد کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے
تیسرا تعاون کو فروغ دینا : بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا اقوام متحدہ کے قیام کی اصل وجہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک اہم مقصد ہے۔ سرد جنگ کی ذہنیت پر بھروسہ کرنا ، نظریاتی لکیریں کھینچنا ، اور زیرو سم گیم کھیلنا، اس طرح نہ تو داخلی امور حل کئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی انسانیت کو درپیش مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
چوتھا عمل پر توجہ مرکوز کرنا : کثیرالجہتی کی مشق کرتے ہوئے ، شکوے شکایتیں کرنے کی بجائے عملی کام کرنے چاہییں۔ اقوام متحدہ کو سلامتی ، ترقی ، اور انسانی حقوق کو متوازن انداز میں فروغ دینا چاہیے ۔خاص طور پر ، اسے پائیدار ترقی کے لئے 2030 کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا ہوگا ۔
صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والا پہلا ملک تھا ، جو اقوام متحدہ کا بانی رکن ملک ہے ، اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں واحد ترقی پزیر ملک ہے۔ چین اس ادارے کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔
دوسری جنگ عظیم میں نظر آنے والے فاشزم کی طرح، وبا کے خلاف اس عالمی جنگ میں یک طرفہ پسندی اور بالادستی انسانیت کو شدید متاثر کرے گی۔ ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں لیکن بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے لیے چند بنیادی امور پر سب کو متحد ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم وقت سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں نہ کہ گول گول دائروں میں گھوم رہے ہیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.