ہمارے بھی ہیں، راہ نما کیسے کیسے؟
سابق صوبائی وزیر اور قائد حزب اختلاف رانا اکرام ربانی خود ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ا گرچہ ان کے قریب ترین رشتہ داروں کا تعلق پیشہ حرب سے ہے۔ ان کے والد غلام صابر خان 1980ء میں ویسٹ پاکستان (موجودہ پاکستان) اسمبلی کے رکن تھے، مرحوم غلام صابر خان پڑھے لکھے اور معاشرتی آداب کے قائل تھے، سیاست میں بھی انہوں نے زندگی اسی انداز سے گزاری، وہ خوش پوش تھے، جناح کیپ پہنتے، تاہم ان کے کپڑے کھدر سے بنے ہوتے تھے اور انہوں نے ساری زندگی کھدر ہی پہنا، رانا اکرام ربانی سے میرا واسطہ پنجاب اسمبلی سے شروع ہوا اور الحمدللہ اب تک دوستی قائم ہے۔ رانا اکرام ربانی نے وزیر صحت کی حیثیت سے جو خدمت کی وہ ان کے ساتھ ہے۔ آج تو ان کا ذکر حزب اختلاف اور ان کے والد محترم کے پہناوے کے حوالے سے ہے۔ میرا ان سے گہرا تعلق بھی ان دنوں ہوا، جب وہ اس پنجاب اسمبلی میں گیارہ اراکین حزب اختلاف کے ساتھ قائد حزب اختلاف تھے اور حکومت مسلم لیگ (ن) کی تھی، تاہم اس ننھی منی اپوزیشن نے کارکردگی کے حوالے سے بڑی تعداد والی اپوزیشن جماعتوں کو مات دی۔
رانا اکرام ربانی خود تیاری کرتے تو ان کے ساتھی بھی پیروی کرتے تھے، چنانچہ وقفہ سوالات اور تحاریک التوا کار کے دوران عوامی مسائل کا ذکر ہوتا اور یہ مسائل دلیل اور ثبوت کے ساتھ پیش کئے جاتے۔ حزب اقتدار کو اس اپوزیشن کی بات ماننا پڑ جاتی تھی، اس کے علاوہ اس ایوان میں احتجاج کی نوبت آ جاتی تو یہ بھی مہذب اور جواب بھی مثبت ہوتا تھا۔حالانکہ تب بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں سخت کشیدگی تھی، یہ مشاہدہ بھی کیا کہ جب صوبائی بجٹ پیش ہوتا تو عام بحث میں یہ گیارہ اراکین بھرپور حصہ لیتے، رانا اکرام ربانی کی ابتدائی تقریر اعداد و شمار اور واقعات کے حوالے سے بھرپور ہوتی تھی اور پھر یہ ننھی اپوزیشن کٹوتی کی تحریکوں کے ذریعے بجٹ کے عمل کو پرمعنی بھی بنا دیتی تھی۔ حزب اقتدار کو پارلیمانی روایات کے مطابق سپیکر چیمبر میں یہ فیصلہ کرنا پڑتا کہ اپوزیشن کو کٹوتی کی تحریکوں پر بحث کے لئے مناسب وقت دیا جائے گا۔ آج جب قومی اسمبلی اور صوبائی ایوانوں کے علاوہ ایوان بالا کی کارروائی دیکھتا اور سنتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ بھاری بھرکم حزب اختلاف بھی جھگڑوں میں پڑی ہے اور ہر اپوزیشن میں تجربہ کار اراکین ہوتے ہوئے بھی حکومت کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اور غیر پارلیمانی گفتگو سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اس وجہ سے عوامی مسائل بھی اجاگر نہیں ہوتے۔
آج یہ سب یوں یاد آیا کہ رانا اکرام ربانی کی طرف سے ایک کتاب کا اقتباس موصول ہوا ہے، جو ان کے والد کو ان کے کسی دوست نے بھیجا اور حوالہ ان کی کھدر پوشی کا تھا، یہ کتاب پنڈت جواہر لال نہرو کے بارے میں ہے ممکن ہے، خود نوشت ہو۔کتاب کا جو حصہ بھیجا گیا، وہ یہ ہے ”جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کام یاب وکیل‘ بزنس مین اور سیاست دان تھے‘ وہ دہلی‘ الٰہ آباد اور کلکتہ میں پریکٹس کرتے تھے اور 1900ء کے شروع میں لاکھوں روپے ماہانہ کماتے تھے‘ وہ دوبار آل انڈیا کانگریس کے صدر بھی رہے‘ بڑے نہرو صاحب خود سیاست دان تھے۔ مگر وہ اپنے بیٹے جواہرل لال نہرو کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے‘ وہ انہیں صرف وکیل دیکھنے کے خواہاں تھے‘ انہیں لاٹھی اور جیل سے بچائے رکھنا چاہتے تھے۔والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا‘ نوابوں جیسی پرورش کی تھی‘ کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور یہ جب بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیے لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے‘ وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے‘ والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو انہوں نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ‘ جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی‘ جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیاگیا‘ فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحب زادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دواور بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا گیا‘
جواہر لال نہرو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے‘ بڑے نہرو صاحب اس وقت سٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول ”وار اینڈ پیس“ پڑھ رہے تھے‘ بیٹے نے پوچھا ”آپ مجھ سے خفا ہیں“ موتی لال نے نظریں کتاب سے اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا ”میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا“ چھوٹے نہرو نے پوچھا ”پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا“ والد نے بیٹے سے کہا ”صاحب زادے تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل‘ بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں‘ میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو۔دوسرا غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں‘ تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے‘ تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا‘ میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چناں چہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے پیسے خرچو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں“ جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اورپھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا۔ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے“۔
پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے‘ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں‘ان کا گلوبل ایکسپوژر بھی ہوتا ہے اوریہ اندر سے رجے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سیاست میں آتے ہیں تو یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے‘ ہم ”ڈرٹی پالیٹکس“ کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ *ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف سٹائل اور ان کی شخصیت ان باتوں سے میچ نہیں کرتی*
آج اس لئے یہ سب لکھ دیا کہ ہمارے وزیراعظم کو ملک میں بھوک کا بہت بڑا خطرہ محسوس ہوا اور ان کے مطابق ریاست مدینہ ان کا ایمان ہے۔ پوری قوم منتظر ہے کہ یہ ریاست کب وجود میں آئے گی اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا قیمتی شلوار قمیض اور واسکٹ ”غربت کی نشانی ہے؟“