صنعتوں کے لئے خام مال سے ایشیاء اور افریقہ مالامال تھے۔ اس لئے 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپی ممالک نے خام مال کے حصول کے لئے ایشیاء اور افریقہ کے ممالک کی طرف یلغار کی۔ صنعتی انقلاب اصل میں برطانیہ سے ہی شروع ہوا اور یہاں سے ہی دوسرے یورپی ممالک اور امریکہ تک پہنچا۔ 1730 میں صنعت میں مشین کا استعمال برطانیہ سے شروع ہو چکا تھا اور یہی صنعتی اِنقلاب سامراجیت کا موجب بنا۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی جو 1600ء میں قائم ہوئی تھی، اُس کے تجارتی جہاز برصغیر کے مشرقی ساحل کی ایک بستی سورت میں شہنشاہ جہانگیر اور شاہجہاں کے زمانے سے ہی لنگر اَنداز ہونے شروع ہو گئے تھے لیکن ا نگریزوں نے اپنا پہلا کارخانہ اور نگزیب بادشاہ کے زمانے میں لگایا۔ اوررنگ زیب کے بعد مغلیہ دور کا زوال شروع ہو گیا۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر 1818 میں قبضہ کر لیا تو کلکتہ میں پہلی ٹیکسٹائل مِل لگائی جس میں 800 سے زیادہ مزدور کام کرتے تھے۔ اِن ملِوں کے محنت کش قلیل معاوضے پر نہائت دگرگوں حالات میں 16 سے 18 گھنٹے تک مزدوری کرتے تھے۔ کلکتہ کے علاوہ جب بمبئی اور گجرات بھی انگریزوں کے قبضہ میں آگئے تو یہاں بھی کپڑے کی ملیں لگنا شروع ہو گئیں۔ اِن مِلوں میں خام مال یعنی روئی پہنچانے کے لئے برطانوی کمپنیوں نے بنگال ریلوے بنائی۔
ریلوے کے ہندوستانی مزدور بھی بے رحمانہ ورکنگ حالات میں کام کرتے تھے۔ کلکتہ میں ہی برطانوی سرمایہ کاروں نے پہلی سٹیل مِل قائم کی۔ وہاں بھی لا تعداد مزدور 3 شفٹوں میں نامساعد حالات میں کام کرتے تھے۔ انگریز اجارہ داروں کے خلاف ریلوے کے، سٹیل کارخانوں اور کپڑے کی مِلوں کے مزدوروں کی بے چینی احتجاج کی صورت اِختیار کرنے لگی۔ چونکہ ہندوستان پر ابھی ملکہ برطانیہ کا راج قائم نہیں ہوا تھا اس لئے مزدوروں کی شنوائی کے لئے کوئی قانون نہ تھا۔ حالانکہ 1854 میں پہلی ریلوے ٹریڈیونین کلکتہ میں بن چکی تھی۔ اُس کے لیڈروں کا چناؤ باقاعدہ ہوتا تھا۔ اکثریتی ووٹ والا لیڈر ریلوے مزدور یونین کا سرپنچ بنتا تھا۔ اُن دِنوں مزدور لیڈروں کے Designation مقامی زبانوں میں ہوتے تھے۔ چونکہ اِن ٹریڈ یونینز کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوتی تھی اس لئے اِن یونینز کے مزدوروں کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوتا تھا۔ وہ تو 1919 میں پہلا Trade Union Act بنا اور اِن ٹریڈ یونینز کی شنوائی ہونا شروع ہوئی۔ ٹریڈ یونینز نے برصغیر میں پہلی مرتبہ الیکشن کی رسم ڈالی۔ یعنی بڑی ہی Basicشکل والی جمہوریت نے جنم لے لیا۔
اِسی اِنڈین ایکٹ1919 نے لوکل گورنمنٹ کے نظام کو پہلی مرتبہ ہندوستان میں متعارف کروایا۔ ابھی تک ہندوستان کی 90 فیصد آبادی دیہاتوں میں ہی بستی تھی۔ ترک سلطانوں اور مغل بادشاہوں کے زمانے میں بڑے شہر گنتی کے ہوتے تھے مثلاً تغلق آباد، دھلی، فتح پور سیکری، آگرہ، لاہور اور پشاور وغیرہ۔ انگریز کے زمانے میں جب صنعتی Activity شروع ہوئی تو بمبئی، کلکتہ، مدراس، کراچی جیسے شہر عالمِ وجود میں آئے۔ مغلوں کے زمانے تک دیہی حکومت کا اِنتظام صوبے دار یا کوتوال کے ذمے ہوتا تھا جو پرگنے اور دیہات میں اپنی مرضی کی پنچائت بناتا تھا اور اپنی ہی مرضی سے سرپنچ مقرر کرتا تھا۔ یہ کوئی جمہوری نظام نہیں تھا۔ 1919 اور اُس کے بعد 1935 کے جو اِنڈین ایکٹ برطانوی ہند کے لئے بنائے گئے، اُن میں دیہی اور شہری لوکل گورنمنٹ کا اہتمام تو ضرور تھا لیکن اُس میں بھی نامزدگیاں زیادہ تھیں۔ میونسپل بورڈز اور شہری کمیٹیوں کے الیکشن بھی ہوتے تھے۔لیکن ہندوستانی معاشرے میں صدیوں سے رائج طبقاتی تقسیم کی وجہ سے اشرافیہ کے لوگ ہی میونسپل ممبر منتخب ہو سکتے تھے، ایک اور اعلیٰ طبقہ ہندوستانیوں میں برطانوی حکومت نے پیدا کر دیا تھا یعنی سفید پوشوں، کُرسی نشینوں، خان صاحبوں اور رائے بہادروں کا طبقہ۔ بڑے بڑے جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور خانوں کا طبقہ، اس کے علاوہ صدیوں سے جاری ذات پات سسٹم نے عام آدمی کو تو سر اُٹھانے ہی نہیں دیا۔ نہ ہندو معاشرے میں اور نہ مسلمان معاشرے میں۔انگریزی راج میں برائے نام قسم کی جمہوریت رائج ہو گئی تھی۔
دراصل ماڈرن جمہوریت کے آنے سے پہلے دو عناصر کا ہونا ضروری تھا۔ Urbanization اور صنعتی ترقی۔ یہ دونوں عناصِر خطہِ پاکستان میں آزادی کے بعد تک بہت سست رفتار رہے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں کی وجہ سے سندھ کے چھوٹے قصباتی علاقے جو بے ہنگم اور شہری ضروریات سے محروم تھے، ایک دم بڑے شہر تو بن گئے لیکن بغیر کسی ترتیب اور پلانینگ کے۔ سندھ میں جو مہاجر ہندوستان سے آئے وہ زیادہ تر شہری پس منظر سے تعلق رکھنے والے چھوٹی سطح کے سرکاری ملازم تھے۔ اُن مہاجروں میں کچھ ہنر مند بھی تھے۔ وہ سندھ کے زرعی اور خانقاہی کلچر کے ساتھ ہم آھنگ نہ ہو سکے۔ انگریز کے زمانے سے ہی خطہِ پاکستان کی نام نہاد جمہوریت پر اشرافیہ کا قبضہ ہو چکا تھا۔ برطانوی راج کے مراعات یافتہ جاگیردار، وڈیرے، سردار، خان اور مخدوم ہی مسلم لیگ کی صدارت سے لے کر میونسپل بورڈز کی رکنیت پر قابض تھے۔ پاکستان کی سیاسی طاقت کا منبع، یہاں کی دیہی سیاست تھی جس پر ابھی بھی جاگیرداروں کا قبضہ ہے۔ اِن میں سے اکثر جاگیردار پچھلے 40 سالوں میں صنعت کار بھی بن گئے۔ پاکستان کی جمہوریت 1990 تک خالصتاً جاگیرداروں اور فوجیوں کے قبضے میں رہی۔ البتہ اِن جاگیردار سیاست دانوں میں مالی کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس طبقہ کا آخری نمائندہ محمد خان جونیجو تھے جن کی دیانتداری سکہ بند تھی۔ ان سے پہلے 3 فوجی حکمران اور 7 پرائم منسٹرز آئے یعنی لیاقت علی خان سے لے کر ذولفقار علی بھٹو تک مالی کرپشن کے کبھی مرتکب نہیں ہوئے۔ اِن میں سے جنرل یحییٰ خان اخلاق باختہ ضرور تھا لیکن مالی بدعنوانی کا الزام اُس پر بھی نہ لگا۔ (جاری ہے)