نوازشریف کی جعلی ویکسی نیشن، معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے
ایف آئی اے ملتان نے جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے تین افراد کو گرفتار کر لیا۔ ملزمان دس ہزار روپے لے کر جعلی سرٹیفکیٹ جاری کرتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک دوست کا مجھے فون آیا۔ اس نے پوچھا کیا آپ نے ویکسی نیشن کروا لی ہے۔ میں نے کہا ہاں کروائی ہے۔ کہنے لگا یہ آپ نے بہت غلط کیا، مجھے بتاتے میں آپ کو بغیر ویکسین لگوائے رجسٹرڈ کروا دیتا۔ میں نے پوچھا اس کا فائدہ کیا ہے؟ یہ کہتے ہوئے وہ کچھ زیادہ ہی پُرجوش ہو گیا کہ ویکسین لگوانے والے دو سال میں مر جائیں گے۔ اس لئے حکومت کی سختیوں سے بچنے کا یہی طریقہ ہے۔ ویکسین کا جعلی سرٹیفکیٹ بنوا لیا جائے۔ میں نے کہا بھائی خوفِ خدا کرو اس قسم کی افواہیں نہ پھیلاؤ۔ ویکسین دنیا بھر میں لگ رہی ہے اور محفوظ ہے۔ کورونا سے بچاؤ کا موثر ذریعہ بھی ہے۔ ہم پاکستانی بھی ہر کام کا کوئی نہ کوئی چور دروازہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ایک طرف ویکسین سنٹروں کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگی ہیں اور دوسری طرف ایسے گروہ بھی سرگرم ہیں جو ویکسین لگائے بنا نادرا کے ریکارڈ میں اندراج کروا دیتے ہیں۔ پہلے مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا، لیکن اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ لاہور میں نوازشریف کے شناختی کارڈ پر انہیں ویکسین لگ چکی ہے اور نادرا کے ریکارڈ میں درج بھی ہو گئی ہے۔ یہ ماجرا کیا ہے؟ اور اس کے پس پردۂ اصل کہانی کیا رنگ لئے ہوئے اس کا راز تو ایف آئی اے کی تحقیق سے کھلے گا تاہم جس نے بھی یہ کام کیا ہے اس نے اس ویکسی نیشن نظام کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے، اگر یہ کام اتنا ہی آسان ہے کہ جتنا نوازشریف کا جعلی اندراج کرنے میں دیکھا گیا ہے تو پھر عام آدمی کے لئے جعلی سرٹیفکیٹ بنانا کتنا آسان ہوگا۔ ایک باخبر صاحب بتا رہے تھے، اس کام میں کروڑوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے اور نادرا، ہسپتال کا عملہ، ویکسی نیشن سنٹروں پر تعینات اہل کار اس دھندے میں ملوث ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے اسے پکڑنے کا کوئی طریقہ نہیں یعنی سوائے سرٹیفکیٹ کے اور کسی طرح یہ نہیں معلوم کیا جا سکتا۔ ویکسی نیشن لگی ہے یا نہیں، معاملہ فرنزک لیب تک جائے تو شاید اس بارے میں معلوم ہو سکے۔
وفاقی وزیر اسد عمر فرماتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) والے جعلی کاموں کے ماہر ہیں، انہوں نے کیلبری فونٹ کا جعلی ویژن بنا لیا تھا، جعلی دستاویزات عدالت میں پیش کی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ ارے وزیر صاحب معاملے کو کیوں سیاسی بنا رہے ہو،اپنے گھر کی خبر لو۔ مسلم لیگ (ن) کو کیا ضرورت پڑی کہ نوازشریف کے لئے جعلی ویکسی نیشن کا سرٹیفکیٹ بنوائے، کیا یہ سرٹیفکیٹ لندن میں کام آ سکتا ہے۔ کیا سرٹیفکیٹ پر لکھا نہیں ہوتا ویکسین کہاں لگی اور کب لگی۔ اصل بات تو یہ ہے اس عمل نے ویکسی نیشن کے پورے نظام پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ این سی او سی روزانہ اعداد و شمار پیش کرتا ہے کہ اتنے کروڑ لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے۔ اس ایک واقعہ نے اس معاملے میں کئی شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ دنیا بھر کو پاکستان میں ویکسی نیشن کے حوالے سے کیا پیغام گیا ہے۔ کیا بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو اب مشکوک نظروں سے نہیں دیکھا جائے گا۔ کیا ان کے سرٹیفکیٹ بیرون ملک بے اعبتار نہیں ہو جائیں گے۔ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے ذمہ دار افراد کو اپنی ناکامی تسلیم کرنی چاہیے۔ لگتا یہی ہے جس نے بھی یہ کام کرایا ہے اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس نظام میں ہونے والی کرپشن کو بے نقاب کیا جائے۔
اس نے جان بوجھ کر نوازشریف کا بلاک شدہ شناختی کارڈ استعمال کیا، تاکہ یہ ثابت کر سکے پیسے کے بل بوتے پر ویکسی نیشن کے دھندے میں کتنی بے خوفی کے ساتھ لوگ جعلسازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے اس حوالے سے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے نوازشریف کا شناختی کارڈ تو پہلے سے بلاک شدہ ہے۔ پھر اس پر اندراج کیسے ہو گیا، نادرا کے پورٹل نے اسے قبول کیسے کیا۔ اس سے تو موجودہ حکومت کی ساری ویکسی نیشن مہم مشکوک ہو گئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے حکومتی وزراء اپنے سسٹم کی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے اسے بھی سیاسی بناکے پیش کر رہے ہیں۔ اسد عمر تو سب پر بازی لے گئے ہیں، انہوں نے اس بات کو بھی مسلم لیگ (ن) کی روائتی جعلسازی سے ملا دیا ہے۔ تو کیا انہوں نے این سی او سی کے تحت جو نظام بنایا ہے وہ اتنا ہی کمزور اور ڈھیلا ڈھالا ہے کہ جو جب چاہے فراڈ کر لے۔ اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ نوازشریف کوئی عام شخص نہیں ملک کے تین بار وزیراعظم رہے ہیں، بچہ بچہ ان کے نام اور شکل سے واقف ہے۔ ان کے شناختی کارڈکی فوٹو کاپی بھی سامنے آئے تو آسانی سے پہچانی جائے گی۔ اس لئے یہ تو کہا نہیں جا سکتا، یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا ہے۔
یہ جان بوجھ کر ہوا ہے اور اس کے لئے وہی راستہ اختیار کیا گیا جو جعلی اندراج اور جعلی سرٹیفکیٹ بنانے والوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔ نوازشریف کا نام استعمال نہ ہوتا تو حکومتی وزراء نے سرے سے یہ حقیقت تسلیم ہی نہیں کرنی تھی۔ اس شعبے میں یہ کرپشن ہو رہی ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان فیاض الحسن چوہان یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ دنیا بھر میں جعلی سرٹیفکیٹ بن رہے ہیں ہمارے ہاں بھی ان کا بننا کوئی انوکھی بات نہیں۔ نجانے وہ کن ملکوں کی بات کررہے ہیں۔ ہم نے تو ابھی تک کسی ملک کا ایسا سکینڈل نہیں سنا، جس میں ویکسین لگوائے بغیر لوگوں کو ویکسین لگوانے کا سرٹیفکیٹ مل رہا ہو۔ اصولاً تو اس بارے میں این سی او سی کے سربراہ کی حیثیت سے اسد عمر کو نوازشریف سے معذرت کرنی چاہیے تھی کہ ان کے نام پر جعلی اندراج ہوا ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ اس نظام میں کچھ خامیاں ہیں، جنہیں دور کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اس کی بجائے انہوں نے شریف خاندان کو جعلساز اور فراڈ کرنے والا کہنا شروع کر دیا۔ اس معاملے میں شریف خاندان آ کہاں سے گیا، کیا پاکستان سے جعلی ویکسی نیشن کا سرٹیفکیٹ برطانیہ میں کام آ سکتا ہے؟ اس سنگین بے ضابطگی کے معاملے کو سیاسی کیوں بنایا جا رہا ہے۔
ایف آئی اے کو یہ معاملہ سونپ دیا گیا ہے۔ اب وہ تفتیش کرے گا، مگر سوال یہ ہے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ایسے جعلسازوں کے نیٹ ورک کو کیسے توڑا جائے۔ یہ شکایت بھی آ رہی ہیں لوگوں کو ویکسین کی بجائے سرنجوں میں پانی بھر کے لگایا جا رہا ہے اور ویکسین فروخت کر دی جاتی ہے۔ نوازشریف کے شناختی کارڈ پر جعلی ویکسی نیشن نہ ہوتی تو یہ معاملہ اس طرح کھل کر سامنے نہ آتا۔ جس نے بھی یہ کام کیا ہے، اس نے درحقیقت ایک بڑے سکینڈل کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ حکومتی وزراء نوازشریف کا نام آتے ہی حسب روایت اس واقعہ کو کسی اور سمت لے گئے ہیں، حالانکہ یہ حکومتی اقدامات کی کمزوری کا معاملہ ہے، جس کی وجہ سے جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ بنانے کا دھندہ جاری ہے۔ اس واقعہ کو سٹیٹ کیس بنا کے اس ضمن میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،تاکہ آئندہ ایسی کوئی مثال سامنے نہ آئے۔