پرندوں کی بڑی ڈار اڑتی سندھو کے سینے پر چمکتے پانیوں پہ اتر گئی، ساتھ ہی ڈولفن کا جوڑا فضاء میں بلند ہوا، انہوں نے منہ سے آواز نکا لی، جیسے قہقہہ لگا یا ہو

پرندوں کی بڑی ڈار اڑتی سندھو کے سینے پر چمکتے پانیوں پہ اتر گئی، ساتھ ہی ...
پرندوں کی بڑی ڈار اڑتی سندھو کے سینے پر چمکتے پانیوں پہ اتر گئی، ساتھ ہی ڈولفن کا جوڑا فضاء میں بلند ہوا، انہوں نے منہ سے آواز نکا لی، جیسے قہقہہ لگا یا ہو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:138
سفر شروع کئے گھنٹہ بھر گزر چکا ہے۔ سورج اوپر اٹھ آیا ہے۔ آفتابی کرنوں میں سندھو کی سطح پر جیسے سفید موتیوں کی لہریں اتار دی ہیں۔ ہمارے سروں سے پرندوں کی بڑی ڈار اڑتی ہم سے ذرا دور سندھو کے سینے پر چمکتے پانیوں پہ اتر گئی ہے۔ چاچا گاماں بولا؛”سائیں! یہ مرغابی ہے۔“ ہم پہلی بار مرغابیوں کے اتنے بڑے غول کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے بہت سال پہلے میں لالہ اعجاز مرحوم کے ساتھ دریائے جہلم پر مر غابی کے شکار پر گیا تھا۔ احمد، عمر، ان کے خالو ”خالو خلیل“ اور خالہ زاد بھائی اوزیر بھی ساتھ تھے۔ صبح بھر کی خواری اور سردی جھیلنے کے بعد صرف 2ہی مرغابیاں ہمارے ہاتھ لگی تھیں۔ حضوربخش اور چاچا گاموں نے بندوقیں تھامی، بندوق میں نے بھی اٹھا لی ہے۔ کشتی کا رخ مرغابیوں کی جانب موڑ ا گیا ہے۔ جب تک میں بندوق کندھے سے لگاتا، شست لیتا، 3 فائر ہوئے، مرغابیاں فضاء میں بلند ہوئیں لیکن4 مرغابیاں پانی کی سطح پر ہی رہ گئیں۔ میں نے اسی خوشی میں بندوق فضاء میں ہی داغ دی ہے۔ آخری سانس لیتی مرغابیوں پر چاچا کی چھری اللہ اکبر کی تکبیر کے ساتھ چلی اور حضور بخش کا نعرہ بلند ہوا؛”سائیں شام کے کھانے کا بندوبست ہو گیا آپ کو ایسی مرغابی کھلاؤں گا کہ آپ انگلیاں چاٹتے رہ جا ئیں گے۔“ دیکھا تو نین اپنی انگلی منہ میں دبائے شکار ہوئے پرندوں کو حیرانگی سے دیکھتے بولی؛ باس! میں نے زندگی میں پہلی بار شکاری کو شکار کرتے دیکھا ہے۔“ باس مسکرا ئے اور بولے؛ ”نین جی! رہنے دیں آپ تو خود شکار ہوئی ہیں مگر آنکھوں سے۔“ اُس کی مسکراہٹ میں کچھ غصہ بھی ہے۔ ان کی گفتگو ختم ہونے تک حضور بخش شکار ہوئی مرغابیوں کو کشتی میں بنے ہوئے پیتل کے بکس میں محفوظ کر چکا ہے۔ سمجھ لیں کشتی کے فریج میں۔ چاچا بولا؛”اب جو مرغابیاں اڑ گئی ہیں ہم سے دور ہی رہیں گی۔ فائرز کی آواز نے انہیں چوکنا کر دیا ہے۔ ہماری کسی بھی چالاکی میں وہ آسانی سے نہیں آنے والی اب۔“ 
مرغابی کے شکار کو زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے قریب ہی پرسکون پانی کی لہروں میں ہلچل سی محسوس ہوئی ہے۔ مشتاق بولا؛ ”لگتا ہے بلھن پھر سے درشن دے گی“۔ نین نے اپنا موبائل کیمرا تیار کر لیا ہے۔ ساتھ ہی ڈولفن کا جوڑا فضاء میں بلند ہوا، انہوں نے منہ سے آواز نکا لی، جیسے قہقہہ لگا یا ہو(کیسے ہو سندھو کے دوستو) اور ہمارے قریب ہی سندھو کے پانی میں اتر کر غائب ہو گئیں ہیں۔ کیا درشن تھا نین تو اپنے کیمرے میں اس نظارے کو محفوظ کر چکی ہے۔ ”واہ کیا تصویر ہے۔“ باس بولے؛”کمال تکا لگا ہے آپ کا۔“وہ بولی؛”باس! تکا آپ بھی لگا سکتے تھے؟“ اس کی آواز کا تیکھا پن سب نے محسوس کیا ہے۔ ڈولفن کا جوڑا ہم سے ذرا دور پھر پانی سے نمودار ہوا، قہقہہ لگا کر ایک لمبی جست لگائی، پانی میں گرا اور چھینٹے کشتی پر اڑا گیا ہے۔ چاچا بولا؛”سائیں! بلھن کا جوڑاآپ مہمانوں کو خوش آمدید کہہ گیا ہے۔“ مجھے ایسا محسوس ہواکہ میرے دوست سندھو نے بلھن کے جوڑے کو جیسے حکم دیا تھا کہ وہ پانی سے ابھرے اور میرے دوست اور اُس کے مہمانوں کا استقبال کرے۔ بہت شایان شان استقبال کیاہے بلھن کے جوڑے نے سائیں۔ میں نے خاموش زبان میں سندھو کو شکریہ کہا۔ 
 میں نے حضور بخش سے پوچھا؛”سندھو کی ڈولفن میں اور گنگا کی ڈولفن میں کیا کوئی فرق ہے؟“ اس نے جواب دیا؛”سائیں!  اس کا بہتر پتہ تو نذیر میرا نی ہی دے سکتا ہے۔ انہون نے ڈولفن پر بڑا کام کیا ہے۔ اگلے پڑاؤ پر شاید اس سے ملاقات ہو سکے۔“ اس سے پہلے کہ وہ آگے کچھ کہتا مجھے داستان گو کی آواز سنائی دی؛”میری جان! کوئی کیا بتائے گا جو میں بتا سکتا ہوں۔ سنو ا کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق کی گئی تھی جس کی رپورٹ ابھی شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ”ڈاکٹر جل براؤننگ“ تھے۔ ان کا تعلق university of saint andrew  سے ہے۔ اس ٹیم میں کئی ممالک کے ”مرین لائف“ماہرین شامل تھے۔ یہ رپورٹ 20 سالہ تحقیق کے بعد شائع کی گئی ہے اور اس میں یہ انکشاف ہوا کہ خطرے سے دو چار سندھو اور گنگا کی ڈولفن ایک نہیں بلکہ دو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس تحقیق سے پہلے یہ خیال تھا کہ دونوں دریاؤں میں پائی جانے والی ڈولفن ایک ہی نسل سے ہے۔ عالمی سائنسی جریدے ”مرین معمل سائنس“ کی جانب سے جاری کردہ 2 دہائیوں کی تحقیق پر مشتمل رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے دریا ئے سندھ اور بھارتی دریاؤں گنگا اور برہم پتر میں پائی جانے والی ڈولفن کی درجہ بندی کرنا ضروری ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ڈولفن کی نسل کو کئی خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان دریاؤں میں پائی جانے والی ڈولفن الگ الگ نسل ہیں۔تحقیق میں دونوں دریاؤں کی ڈولفن کی کھوپڑی اور دانتوں کی پیمائش کی گئی اور یہ رنگ سمیت دیگر جنیاتی فرق رکھتی ہیں۔ڈاکٹر جل کا کہنا ہے دونوں نسلوں کو بچانے کے لئے انتہائی اقدام کرنے لازمی ہیں۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -