کسی بھی ملک کی بات کریں تو ہر ملک کی اپنی ایک جغرافیائی اہمیت ہے اور کچھ خصوصیات ہیں جو اسے دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی یا جدا کرتی ہیں اسی طرح اگر ہم سعودی عرب کی بات کریں تواس مملکت سعودی عریبیہ کی بھی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو دیگر علاقوں کے ممالک سے ممتاز کرتی ہیں۔ سعودی عرب اپنے محل وقوع، تہذیب و ثقافت، مذہبی شناخت، جغرافیائی حیثیت اور اپنے باشندوں کے اعتبار سے ایک اہم حیثیت کا حامل ملک ہے۔ مذہبی حوالے سے تو سعودی عرب مسلمانوں کیلئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہی ہے لیکن اس مملکت کا قیام کیسے عمل میں آیا جو آگے چل کر ایک عظیم ملک سعودی عرب بناجو کہ ایک طویل جدوجہد ہے کہ کیسے سعودی عرب کا قیام ممکن ہوا لیکن مختصراً بات کریں تو آل عبدالعزیز کے جد امجد ملک عبدالعزیز نے 19ستمبر 1932 میں یہ شاہی فرمان جاری کیا کہ 23 ستمبر 1932 سے ہمارے ملک کا نا م ”مملکت عربیہ سعودیہ”ہوگا، اسی لیے اس دن کو“الیوم الوطنی”قومی دن (National Day) کے طور پر منایا جاتا ہے اسی دن کی مناسبت سے اب ہر سال سعودی عرب 23ستمبر کو اپنا قومی ڈے مناتا ہے اور اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیں تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں،سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نواف بن سعید المالکی نے 23ستمبر کو اس دن کے موقع پر مقامی ہوٹل میں تقریب منعقد کی جس میں پاکستان بھر کی نمایاں سیاسی،سماجی و مذہبی شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔دوسری طرف اگر موجودہ سعودی عرب کے حکمرانوں کی بات کریں تو خادم الحرمین شریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان بھی اپنے پیش روؤں کی طرح نہ صرف سعودی عرب میں آنے والے زائرین کی خدمت میں مصروف ہیں بلکہ مسلمانوں کو جہاں ضرورت ہوتی ہے ان کی خدمت کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔دوسری طرف اگر ہم پاکستان اور سعود ی عرب کے تعلقات کا جائزہ لیں تو دونوں دو ایسے ممالک ہیں جو نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور نظریے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہواجو اب تک قائم و دائم ہے۔سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمران جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں،اس کے باعث بھی پوری دنیا کے مسلمان ان کے ساتھ خصوصی عقیدت رکھتے ہیں اور پاکستانی تو خاص طور پر اس مقدس سرزمین سے الفت و محبت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی رسمی، عارضی، مصلحت کی دوستی نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام ایک دسرے سے روحانی تعلق کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کے وجود کا مرکز و محور مکہ ان کی روح ہے تو مدینہ میں ان کی زندگی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی مسلمان اپنی روح اور زندگی کے بغیر ادھورے ہیں، وہ ان دونوں کے بغیر نہ مکمل اور کچھ بھی نہیں ہیں، اس لئے یہ رشتہ دونوں ممالک کے درمیان تاازل قائم و دائم رہے گا۔۔ دوسری جانب پوری دنیا میں پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب کی کوشش رہی ہے کہ مسلم امہ میں اتحاد قائم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے۔ سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور محمد بن سلمان تک اس خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے اور وہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بھی ویسا ہی والہانہ پیار کرتے ہیں جیسا وہ اپنے ملک کے ساتھ کرتے ہیں۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے ہیں اور پاکستان پر جب بھی کوئی مشکل آن پڑی تو سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کرنے میں کبھی تساہل سے کام نہیں لیا بلکہ آگے بڑھ کر پاکستان کو اس مشکل سے نکالا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے سفراء بھی پاکستان میں کافی متحرک رہے ہیں۔سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نواف بن سعید المالکی دونوں ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اس مقصد کیلئے سفارتی عملے کی تجربہ کار ٹیم بھی ان کے ہمراہ ہے جو دونوں ممالک کے در میان تعلقات کو فروغ دینے کیلئے اپنے سفیر کے ساتھ ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔ پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی ہے۔ پاکستان میں چاہے کسی کی بھی حکومت رہی ہو لیکن ہر حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اولین فوقیت دی اور پاکستان کے حکمرانوں کی روایت رہی ہے کہ وہ سب سے پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کرتے ہیں تاکہ مسلم دنیا کے سرخیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مزید فروغ پائیں۔جس طرح سعودی عرب مسلم امہ کی سربراہی کا کام کر رہا ہے اور ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں جس طرح جدیدیت کو فروغ مل رہا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب نہ صرف مسلم امہ بلکہ پوری دنیا میں ایک کلیدی کردار کا حامل ملک بن کر ابھرے گا اور اسی کی ہاں یا ناں پر دنیا کے فیصلے منحصر ہونگے۔ان شاء اللہ