بجلی مچھر اور حکمران ماں بھی ’کھا ‘گئے

بجلی مچھر اور حکمران ماں بھی ’کھا ‘گئے
 بجلی مچھر اور حکمران ماں بھی ’کھا ‘گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گلوبل پنڈ ( محمد نواز طاہر)باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا کا کوئی نعم البدل نہیں ۔بعض اوقات اولاد کی محبت میں ماں اور با پ میں ٹھن بھی جاتی ہے ، کبھی ماں اور کبھی باپ اپنی اولاد کیلئے ایک دوسرے کے سامنے ڈھال ہوتے ہیں ۔یہ ڈھال کسی طرح ڈھلتی ہے اس کا منظردیکھنے کا موقع بھی ملا۔بلکہ پورا سچ یہ ہے کہ خود ہی بھگتا ہے ۔
 شام چھ سے رات بارہ بجے کی ڈیوٹی کے دوران دو اڑھائی گھنٹے ’کام‘ کرکے گھر گیا تو تمام راستے کی طرح گھر میں بھی آمریت جیسی تاریکی تھی ۔کوئی بچہ مچھر سے لڑ رہا تھا ،کسی کو نام کی حد تک مچھر بھگانے والے میٹ کی بُو اور دھویں سے شکایت تھی ۔ مچھر اور بجلی خون کا کتنا خراج لے رہے تھے یہ وہی بہتر جانتے ہیں میں تو صرف چیخ پکار سے زچ ہو رہا تھا۔بڑھتا ہوا بلڈ پریشر روکنے اور ٹینشن ڈائیورٹ کرنے کیلئے سوال کرلیا کہ بھی ٹیسٹ کی تیاری کرلی ؟جوابی حملہ بھی اسی طرح ہوا جیسے مچھر کر رہے تھے ۔گویا مچھروں سے ڈرون حملوں کا معاہدہ میں نے کیا ہو؟
بجلی سے چلنے والی لائٹوں سے زیادہ عارضی اور اپنے موبائل ٹیلی فون کی ٹارچ اضافی طور پر چلا کر بیٹے کے حوالی کی اور اسے ٹیسٹ کی تیاری کرنے کی ’جسارت‘ کی تو جواب انکار کی صورت میں تھا ، ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ’مومو‘ تڑاخی’ا ششش شاواشے‘اب بچہ اتنی کم لائٹ اور پنکھے کے بغیر مچھروں سے لڑے یا پڑھے؟ اور تم یہ بھی کہو گے کہ پہلے تو لوگ لاٹین کی روشنی میں بھی پڑھتے تھے؟ تمہیں سٹریٹ لائٹ میں پڑھنے والے بھی یاد آئیں گے؟ لگتا تھا جیسے زبان گنگ ہوگئی لیکن صاحبزادے بولے اب سٹریٹ لائٹ میں پڑھائی نہیں سٹریٹ کرائم ہوتا ہے ،اس ایک جملے میں کئی جواب تھے ۔ساھبزادے اس بات پر بڑا زعم رکھتے ہیں اس کا باپ صحافی ہے اور صحافیوں کے سامنے کوئی پَر نہیں مارتا ، بولے مچھروں کا علاج تو کرنہیں سکتے ، ماں نے گرہ لگائی کہ کم از کم اچھے سپرے کا انتظام ہی کرلیا جائے تو مجھے یاد آیا گزرے زمانے میں بلدیہ کے اہلکار مچھر مار سپرے کیا کرتے تھے ۔ابھی یہ یاد زبان آنے والی تھی کہ صاحبزادے کا جنرل نالج ذہن میں آگیا اور چپ رہنا ہی مناسب سمجھا کہ گذرے زمانے کی کوئی بات بھی اب مستقبل پر لاگو نہیں ہوتی ماسوائے سیاستدانوں کے وعدوں اور ادھورے کاموں کے جو انہوں نے اگلے الیکشن کیلئے زیرالتوا رکھے ہوتے ہیں ۔ویسے بھی مچھر مار سپرے تو پچھلے سال ڈینگی ہی کھا گیا تھا او جو نیا خریدنا تھا اس کے فند شائد میٹروبس منصوبے میں کام آگئے ۔ یہ خوبصورت اور خوب سرعت منصوبہ ہے جس کی سڑک بھی اس شہر میں پرایا ہونے کا احساس دلاتی ہے اور لوگوں کا یہ تبصرہ بھی کچھ کچھ اچھا لگتا ہے کہ جنے پیسے اس منصوبے پر لگا کر ایک روٹ پر ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی ہے اتنے پیسوں سے لاہور ڈویژن میں بجلی کی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا ؟ ؟ ؟ اسی اثناءمیں ایک موٹے مچھر نے اپنے وجود کی اطلاع میرے کان میں دی تو تو برانچ لائنوں پر متروک ہونے والی ریل یاد آگئی ۔میں نے ریل بھی گذرا ہوا کل سمجھ کر مزید ا یاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ہلکا سا سی کرکے مچھر کا مقابلہ شروع کردیا اور اس وقت چونکا جب چھوٹے صاحبزادے چلائے کہ مجھے مچھر کاٹ رہا ہے تو اس کی ماں نے جواب دیا کہ’ پیو نوں آکھو کجھ کرے ، میں کہیہ کراں، مینوں ویمچھر کھا گئے نیں (اپنے باپ سے کہو کچھ کرے ،مجھے بھی مچھر کھا گئے ہیں )میری طرح ، میرا بیٹا بھی سی سی کر رہا تھا لیکن اب میں گزرا زمانہ نہیں بھول پایا کہ وقت کی آندھی تو پرانی ’ ماںبھی اپنے ساتھ اُڑا کر لے گئی ہے ۔ورنہ مچھرہی تو اتنا ظالم نہیں ،یہ کام اور کردار تو اربابِ اختیار اور حکمرانوں کا ہے ۔

مزید :

بلاگ -