بہت سے لوگوں نے خاص طور پر غیر مسلم دوستوں نے مجھ سے سوال کیا کہ قرآن عربی زبان میں کیوں اُتارا گیا۔ چونکہ مَیں ملازمت کے سلسلے میں 30 سال تک مختلف ممالک میں جاتا رہا اور وہاں میرا واسطہ مختلف مذاہب کو ماننے والوں سے پڑا۔ اُن میں گورے مسیحی بھی تھے ، انڈین ہندو بھی تھے، بلکہ کچھ ایرانی بھی تھے۔ میرا جواب ہوتا تھا مثلاً یہ کہ ہمارے نبیؐ کی مادری زبان چونکہ عربی تھی اس لئے قرآن عربی میں نازل ہوا۔ اس قسم کا جواب دے کر میری بھی تشفی نہیں ہوتی تھی ،لیکن میرے پاس اس جواب سے بہتر کوئی دلیل بھی نہیں تھی۔ پھر کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میرے بہت سے مسلمان دوست ، جو صوم و صلوٰۃ کے بھی پابند تھے اور ہر لحاظ سے اُن کو بہتر مسلمان سمجھا جا سکتا تھا، ای میل کے ذریعے اس مباحثے میں پڑ گئے کہ اللہ تعالیٰ جب رب العالمین ہے تو وہ تو سب زبانیں جانتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نماز کی ادائیگی اپنی مادری زبان میں نہیں کر سکتے ، کیا عربی زبان ہی نعوذ باللہ خدا کو آتی ہے۔ دنیا کے 140کروڑ مسلمانوں میں صرف 14 کروڑ مسلمانوں کی زبان عربی ہے بقیہ مسلمان تو غیر عرب ہیں۔ اِن لوگوں کو میرا جواب تھا کہ اللہ تعالیٰ تو دِلوں کی زبان بھی جانتا ہے، عربی زبان میں قرآن کی تلاوت کرنے سے اور نماز بھی عربی زبان میں ادا کرنے سے مسلمانوں میں مرکزیت کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ میرے اس جواب کے خلاف بڑے زور دار دلائل آئے۔ کہا گیا کہ ربِ کریم تو مستقبل کی سیاسی صف بندیوں کو جانتے تھے، اُن کو تو معلوم ہی تھا کہ اُنیسوی صدی کے بعد Nation-state عالمِ وجود میں آنی شروع ہو جائیں گی، اُمہ کا اُلجھا ہوا تصور ماند پڑ جائے گا۔ مسلمان 56 قوموں میں بٹ کر اپنا اپنا ملک بنا لیں گے۔ عربی بولنے والے ممالک تیل کی دولت کے بعد غیر عرب مسلمانوں کو مسکین کہہ کر پکاریں گے۔ خود بھی ایک دوسرے سے حسد کرتے ہوئے نفاق کے شکار ہونگے۔ ایسی صورت میں کہاں کی مرکزیت اور کیسا اِتفاق۔ میَں خود بھی اپنے نقطہِ نظر سے متفق نہیں تھا۔ جو حال اس وقت عربی بولنے والے ملکوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ہم غیر عربوں کے لئے زیادہ پریشان کُن ہے۔ 60 اور70 کی دھائی میں جب عربی لوگ کراچی اور لاہور میں تسبیح پکڑے ہوئے شاپنگ کرتے نظر آتے تھے تو ہمارے اَن پڑھ سادہ لوح عوام اِ ن کو عقیدت سے چُھوتے تھے، اِن کے منہ سے عربی گفتگو کو قرآن کے الفاظ سمجھتے تھے۔ اِن عربوں کی قبیح عادتوں کو ہم بینک والے خوب سمجھتے تھے، کیونکہ وہ ہمارے مہان ہوتے تھے۔ ہم غیر عرب جو کسی بھی جزیرۃالعرب کے ملک میں مختلف حیثیتوں میں کام کرتے رہے ہیں عربوں کی قبیح ، غلیظ اور غیر انسانی عادتوں سے بھی واقف ہو چکے تھے۔ جب ہم امارات میں چھوٹے معصوم بچوں کو اُونٹ کی Race کے جاکی کی حیثیت میں چیخیں مارتے سُنتے تھے تو ہمیں عرب خونخوار وحشی نظر آتے تھے۔ اماراتی عرب اپنی اس تفریح کے لئے غریب ملکوں (پاکستان ، بنگلہ دیش، صومالیہ وغیرہ) سے4 سے 7 سال کے بچوں کو خرید کر اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ سعودی نوجوان چونکہ گھُٹن کے ماحول میں رہتے ہیں اس لئے اُن کی عیاشی کے لئے دبئی، بحرین اور کویت کے قحبہ خانے جو Casino اور ہوٹلوں کی شکل میں ہیں، خوب دولت کماتے ہیں ۔ شیشے (حقہ) کی لت جو پاکستان میں بھی آگئی ہے وہ بھی اِن عربوں کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ عربوں کی اِن حرکتوں کی وجہ سے لاشعوری طور پر غیر عرب مسلمانوں نے عربوں کی زبان پر بھی سوال اُٹھا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے بداعمال لوگوں کی زبان میں قرآنِ کریم کیوں نازل کیا ۔ سوائے GCC ممالک کے جہاں جہاں عربی زبان بولی جاتی ہے، اُن ممالک کے عوام میں تکبّر، خشونت اور رعونت نام کو بھی نہیں ہے۔ جب ہم عربوں سے نفرت اور بیزاری کا اِظہار کرتے ہیں تو وہ GCC ممالک کے عرب ہیں۔ ورنہ آپ سوڈان، مصر، عراق، مراکش یا شام چلے جائیں وہاں کے عرب نہائت نرم گو اور خوش اخلاق ملیں گے اور ہم غیر عربوں سے عزت سے گفتگو کریں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عربی زبان تو اپنی شان کے ساتھ قائم ہے۔ خرابی ہے تو جزیرۃ العرب میں بسنے والوں میں ہے جو اپنی حرکتوں کی وجہ سے عربی زبان کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔ دراصل یہ سوال کہ قرآن مجید عربی زبان میں کیوں نازل ہوا صدیوں سے پوچھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ پڑھے لکھے اور لبرل مسلمان آج بھی یہ سوال کرتے ہیں۔ عربی زبان کا تقدس جو ہم غیر عربوں کے دِلوں میں تھا وہ کمزور پڑتا نظر آتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ قرآن کے تقدس میں کوئی فرق آیا ہے۔ دراصل عربی زبان بولنے والی قوموں سے جب ہمارا رابطہ ہوا ، خاص طور سے پیٹرول کی دولت سے مالا مال ممالک کے باشندوں سے، تو سچ بات ہے کہ غیر عرب مسلمانوں کے دِلوں میں اِن کے لئے نفرت پیدا ہوگئی۔ یہ نفرت بلاوجہ نہیں ہوئی۔ میَں نے 8 سال سعودی عریبہ میں بینک کی اعلیٰ ملازمت کے سلسلے میں گذارے۔ میرا پہلا واسطہ کسی عرب عوام سے پڑا تو یہ سعودی ہی تھے۔ بینک کی ملازمت کی وجہ سے میرا تعلق ہر قسم کے سعودیوں اور اُن کی خواتین سے بھی رہتا تھا۔ میرا ملنا جُلنا سفیدکالر والی ملازمت والے اور محنت کش پاکستانیوں سے بھی رہتا تھا۔ سعودی نئے نئے امیر ہوئے تھے۔ اُن کا گستاخانہ اور کرخت روّیہ غیر عربوں کے ساتھ عموماً مالک اور غلام کا سا ہوتا تھا۔ اور اَب بھی ہے۔ خواہ ہنرمند یا غیر ہنر مند مزدور ہوں، اُن کے لئے سعودی عربوں کا لہجہ ہمیشہ حاکمانہ ہوتا تھا۔ سعودی قوانین بھی ایسے ہی ہیں کہ مزدور پیشہ غیر ملکی کسی نہ کسی سعودی کی کفالت میں ہوتے ہیں۔ کفیل اپنے غیر ملکی عامل کا پاسپورٹ سب سے پہلے قابو کرتا ہے۔ اُس کو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے بھی " ورقہ" (اِجازت نامہ) لینا پڑتا ہے۔ اگر کفیل تنخواہ کئی کئی ماہ نہ دے تو غیر ملکی عامل نہ ملازمت چھوڑ کر کہیں اور جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے ملک واپس جا سکتا ہے۔ اِسی قسم کے غلامانہ قوانین کچھ ردوبدل کے ساتھ کویت، بحرین، قطر ،مسقط، اور اِمارات میں بھی ہیں۔ جب برِصغیر کے پڑھے لکھے مسلمان اِن ممالک میں اعلیٰ ملازمتوں کے لئے گئے اور اُنہوں نے اپنے غریب ہم وطنوں کے ساتھ عربوں کا غیراِنسانی سلوک دیکھا ، تو قدرتی امّر ہے کہ عربوں کے لئے جو احترام تھا وہ نفرت میں بدل گیا۔ چونکہ ہم پاکستانی مکہّ اور مدینہ کی زیارت میں زیادہ گرم جوشی دکھاتے تھے اس لئے سعودی ہمیں ہی زیادہ تحقیر سے دیکھتے تھے۔ یہ بات میں 1979 - 1986 کی کر رہا ہوں۔ سعودیوں کے نازیبا سلوک کو ہمارا غریب ، سادہ اور عاشقِ رسولؐ محنت کش طبقہ خوشی خوشی برداشت کر لیتا تھا، لیکن پڑھا لکھا غیرعربی سعودیوں سے شدید نفرت کرنے کے باوجود اِس کا اِظہار نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ اچھی بھلی نوکری کے جانے کا خطرہ تھا۔ اسی نفرت کے زیرِ اثر سوال اُٹھنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں سے ہی کیوں نبی آخری الزماں ؐ کو چُنا۔ عربی میں قرآن مجید کیوں نازل ہوا، نعوذ بااللہ کیا اللہ تعالیٰ عربی زبان ہی جانتا ہے، کیا یہ ضروری ہے کہ صلوٰۃ (نماز) عربی میں ہی ادا کی جائے۔ اس قسم کے گمراہ کُن سوال 1970 سے پہلے کسی مسلمان کے منہ سے نہیں نکلے تھے۔ صر ف نماز کے بارے میں اتاترک مصطفی کمال پاشا نے یہ بدعت کی تھی کہ نماز ترکی زبان میں ہو، بلکہ اَذان بھی ترکی زبان میں دی جائے۔ دراصل عربوں نے انگریز کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف جو غداری کی تھی، اُس کا ردّ عمل تھا جس نے اتاترک کو عربوں کی زبان سے ہی نفرت کروا دی۔ قرآن مجید میں صلوٰۃ قائم کرنے کا تو حکم ہے، لیکن کس طرح صلوٰۃ ادا کرنی ہے، کس زبان میں پڑھنی ہے، کتنی بار ایک دِن میں ادا کرنی ہے، اس کا ذِکر قرآن میں نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے رسول ﷺ نے ازخود عملی طور پر کر کے ہمیں نماز کا بتایا، جس کی ہم پیروی کرتے ہیں۔ قرآن مجید عربی زبان میں کیوں نازل ہوا ، اس کا جواب جاننے کے لئے ہمیں رسول اللہ کی پیدائش سے 3000 سال پیچھے جانا ہو گا جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے وطن کنعان (نینوا)سے اپنے بڑے بیٹے اسمٰعیل ؑ اور اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ جنوب کی طرف قریباً850 میل کے فاصلے پر ہجرت کر کے مکہّ پہنچے تھے۔ ہمارے ایمان کا یہ حصہ ہے کہ آلِ ابراہیم ؑ سے ہی کوئی نہ کوئی ہستی نبیوں کی آخری لڑی ہو گی۔ اس بارے میں ہم کوئی حجت نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ ہمارے عقیدہ کا حصہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کو مکہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ایک اور وجہ سے بھی ملا ہو گا۔ مکہ میں حجراسود موجود تھا۔ اس سیا ہ پتھر کو آگے چل کر مسلمانوں کی عبادت کی علامت بننا تھا۔حجراسود کو جس مکعب نما کمرے کی دیوار میں پیوست کرنا تھا، اُس کمرے کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ سے کروانی مقصود تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ اگر مکہ کی طرف ہجرت نہ کرتے تو وہ شمال میں خراسان کی طرف ہجرت کر جاتے۔ وہاں کی زبان خراسانی فارسی تھی۔ظاہر ہے وہیں شیر خوار حضرت اسمٰعیل ؑ بھی اپنے والدین کے ہمراہ جاتے ۔ وہاں خراسان میں ہی حضرت اسمٰعیل ؑ کی نسل چلتی اور وہیں اللہ کے حکم سے محمد ﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن عبدالمناف اس دنیا میں تشریف لاتے اور اُن کی مادری زبان فارسی ہوتی۔ چونکہ محمد ﷺ بن عبداللہ کو ہی نبی آخری الزماں ہونا تھا اس لئے قرآن مجید بھی فارسی میں ہی نازل ہوتا، لیکن مشیتِ ایز دی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ عربی زبان کے مقابلے میں دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانیں کسی نہ کسی طور کم تر ہیں۔ یہ بات میَں بطور ایک مسلمان کے نہیں لکھ رہا ہوں۔ جو لوگ علمِ زبان (Linguists) کے ماہر ہیں وہ بتاتے ہیں کہ جتنی بلاغت، فصاحت، اظہاریت اور اسلوب (Diction) عربی زبان میں ہے اِتنی خصوصیات دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ بھی یہی کہتا ہے ۔ مجھے یورپ کی بہت توانا زبانوں کی اچھی خاصی سوجھ بوجھ ہے مثلاً جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی، اس کے علاوہ انگریزی ، فارسی عربی، اُردو اور گورمکھی(مع Script ) ۔ یہ سب زبانیں میَں اچھی طرح مع گرامر سمجھتا ہوں، ان میں سے کوئی بھی زبان عربی کی طرح مکمل نہیں ہے۔ عربی کی لُغت (Vocabulary) میں الفاظ کا ذخیرہ اِنسانی زندگی سے تعلق رکھنے والی ہر کیفیت ،فعل اور روّیے کے اِظہار کے لئے موزوں ترین لفظ مہیا کرتا ہے۔ عربی زبان میں ہی یہ ممکن ہے کہ فعل (Verb) کی شکل مذکر اور مؤنث کے لئے بدل جاتی ہے۔ واحد کے لئے ، 2 افراد کے لئے اور 2 سے زیادہ افراد کو مخاطب کرنے کے لئے بھی فعل کی شکل بدل جاتی ہے۔ عربی زبان میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتہ چل جاتا ہے کہ اِن احکامات کا مخاطب ایک مرد ہے یا ایک عورت، دو افراد ہیں یا بہت سے لوگ ہیں۔ یہ سہولت ہمیں کسی اور زبان میں نہیں ملتی ۔ عربی گرامر کی اس خوبی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور ہدایات میں کوئی ابہام نہیں ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی بنائی ہوئی تمام مخلوق میں سے صرف اِنسان کو اُس کی جسمانی اور ذہنی خصوصیات کی وجہ سے اشرف المخلوقات کا درجہ دینے کے لئے چُنا اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تمام زبانوں میں سے عربی زبان کو قرآنِ مجید کی ترسیل کے لئے چُنا گیا۔ ہم مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ظہور سے پہلے کے زمانے کو جاہلیہ کا دور کسی اور حوالے سے کہتے ہیں ورنہ وہ دور عربی ادب اور شاعری کا سنہری دور تھا۔ عرب خوامخواہ غیر عربوں کو عجمی (گونگا) نہیں کہتے تھے۔ واقعی عربی زبان کے مقابلے میں اُس وقت کی مشہور زبانیں(فارسی، چینی، سنسکرت، عبرانی، رومن لاطینی اور مصِری ) نہ ہی الفاظ کا اِتنا ضخیم ذخیرہ رکھتی تھیں اور نہ ہی اُن کی صرف و نحو (Grammer) اتنی ترقی یا فتہ تھی کہ وہ ہر قسم کے اِظہار کے لئے مکمل ہوتی۔ قرآنِ مجید کا پیغام روحانیت اور ہدائت کا مجموعہ ہے۔ ہر دو قسم کے اِظہار کے لئے عربی ہی موزوں ترین زبان تھی اور اسی لئے قرآنِ مجید عربی زبان میں نازل ہوا۔