مودودی یا ماریو پوزو
جماعت نہم کے سالانہ امتحان میں راقم نے دو مضامین میں پوزیشن حاصل کی۔ سکول سرکاری تھا، لیکن پڑھاکو بچوں کی ہمت بڑھانے کے لئے تقریب تقسیم انعامات ہوتی تھی ،جس میں لال پیلے کاغذوں میں لپیٹ کر کتابیں انعام میں دی جاتی تھیں۔ اسلامیات میں 75 میں سے 74 نمبر حاصل کیے تو اِنعام میں ملی ’’تفہیم القرآن‘‘ کی پہلی جِلد۔ انگریزی میں 75 میں سے 42 نمبر لے کر ٹاپ کیا تو انعام میں ملی ’’گاڈ فادر‘‘۔ دین دُنیا کی پہلی سمجھ یہی دو کتابیں پڑھ کر آئی۔تفہیم القرآن سے سمجھ میں آیا کہ اللہ کے بندے بن کر رہو، حق سچ کا ساتھ دو تو بخشش کا امکان موجود ہے۔ گاڈ فادر نے سمجھایا کہ کوئی چکر ہی نہیں۔ اچھائی برائی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پیسہ اور پاور ہی زندگی کا مطمحِ نظر ہے۔ایک کتاب نے یہ سمجھایا کہ نماز پڑھو اِس سے پہلے کہ تمہاری نماز پڑھی جائے۔ دوسری نے یہ بتایا کہ دشمن کی کمر میں خنجر اْتارو اِس سے پہلے کہ وْہ تمہاری پشت میں خنجر اُتارے۔ تفہیم القرآن نے بتایا کہ دوستوں کو قریب رکھو اور دشمنوں کو اْس سے بھی زیادہ قریب رکھو۔
ہم نے بھی سہمے ہوئے کنفیوزڈ مسلمانوں کی طرح تفہیم القرآن کو دِل میں رکھا اور گاڈ فادر کی ایک کوٹیشن اپنے کمرے کی دیوار پر لگا لی۔نہ قانون کی کوئی سمجھ ہے، نہ کبھی اسلام آباد میں ازل سے جاری اداروں کے تصادم اور پاور بیلنس کی کبھی سمجھ آئی، لیکن سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ پڑھ کر تسلی ہوئی کہ مُلک کے سب سے بڑے جج جو دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے ہیں اور قانون کے ساتھ ساتھ عالمی فلسفے اور ادب کی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں اُن کا ادبی ذوق بھی نویں جماعت کے طالب علم کی طرح ہی معصومانہ ہے جو فیصلہ نہیں کر پاتا کہ ہماری اخلاقی دْنیا کا منع ایک آفاقی کتاب ہے یا ایک بوڑھے گورے کا لکھا ہوا مصالحے دار ناول۔اِس چھوٹی عمر میں میں نے گھر سے چھپ کر پنجابی فلم مولاجٹ دیکھی تھی اور سمجھ یہی آئی تھی کہ مولا جتنی بھی عزتیں بچاتا رہا ہمارے دِلوں سے نوری نت نوری نت کی آوازیں ہی آتی تھیں۔
ہم اپنے آپ کو جتنا بھی پاکباز سمجھیں ولن کو ہم تب بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں، جن کے دفتر میں قائد اعظمؒ کی تصویر لگی ہوتی ہے، لیکن اْن کا آئیڈیل ملک ریاض ہے جو ہر کوئی مانے گا کہ پاکستان کا اصلی تے وڈا ’’گاڈ فادر‘‘ ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے گاڈفادرز میں سے کون ہے جو اْس کے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے جْھوٹے نہیں لیتا۔لیکن قول و فعل کے اِس تضاد کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے بعض دفعہ پاک نیت والے بھی جہنم کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں۔ معلوم نہیں محترم جسٹس صاحبان کو اُردو ادب سے شغف ہے یا نہیں ورنہ انتظار حسین مرحوم کی کہانی میں لوگ مکہ کی طرف سفر کرتے ہیں، لیکن صبح ہوتی ہے تو اپنے آپ کو کوفے میں پاتے ہیں۔گاڈ فادرز کی دُنیا میں جرم کو جرم نہیں کہتے بزنس کہتے ہیں۔ اِس دْنیا کا پہلا اصول یہ ہے کہ کوئی اصول نہیں ہے قانون اُس کے لئے ہے، جس کے پاس نوٹوں سے بھرا بریف کیس ایک وکیل کو دینے کے لئے ہے۔ گاڈ فادری قائم رکھنے کے لئے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو بھی گلے لگاؤ اور اگر بھائی بھی رستے میں آئے تو اْس کو یخ بستہ پانیوں میں ڈبو دو۔ اِس دُنیا میں بڑا گاڈ فادر قابو سے باہر ہو رہا ہو تو اْبھرتے ہوئے چھوٹے گاڈ فادروں کو ساتھ ملاؤ۔
اب ہمارے گاڈ فادر وزیراعظم کی تفتیش حساس اداروں کے درمیانے درجے کے گاڈ فادر کریں گے۔ یہ ادارے اِتنے حساس ہیں کہ سپریم کورٹ کو اِنھیں پیشی کا کہنے سے پہلے پسینہ آیا ہے۔ نہ سمن مانتے ہیں، نہ سرکاری وارنٹ اِن پر لاگو ہوتا ہے۔ ایک نجات دہندہ چیف جسٹس جن کے بیٹے کو بھی کِسی نے گاڈ فادر کہہ دیا تھا انہوں نے ایک دفعہ کوئٹہ میں کچہری لگا کر خبردار کیا تھا کہ دیکھو وْہ وقت نہ آ جائے کہ مجھے کِسی تھانیدار کو حکم دینا پڑے کہ وہ کسی حساس ادارے کے اہلکار سے تفتیش کرے۔ خدا کا شکر ہے کہ ایسا وقت نہ کبھی آیا اور نہ آئے گا۔کل ٹی وی پر پاکستانی سیاست کے دو درمیانے درجے کے گاڈ فادر پریس کانفرنسں کر رہے تھے اُن کے پیچھے تھوڑی سی کھلبلی مچی۔ انہوں نے کچھ تردّد کے بعد کہا چلیں آپ بھی آ جائیں بیچ میں سے جماعت اِسلامی کے امیر مولانا سراج الحق نمودار ہوئے اور فرمانے لگے کہ اِخلاقیات ہر مذہب ملت سے اْوپر کی چیز ہوتی ہے۔ دِل کو تسلی ہوئی کہ تفہیم القرآن کے مصنف مولانا مودودی کے وارث آخر کار چھوٹا موٹا گاڈ فادر ہی بننا چاہتے ہیں۔