پاک روس تعاون کا نیا دور

پاک روس تعاون کا نیا دور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


روس نے کہا ہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اہم مُلک ہے اور وہ اس کے ساتھ موجودہ فوجی تعلقات میں مزید فروغ چاہتا ہے۔روس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ دفاعی اور سیکیورٹی تعلقات کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اظہار چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ ماسکو کے موقع پر کیا گیا ہے۔جنرل باجوہ نے کریملن پیلس میں روسی فیڈریشن کی زمینی افواج کے کمانڈر کرنل جنرل اولیگ سالیوکوف سے ملاقات کی، جس میں روسی کمانڈر نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں اور علاقائی امن و استحکام کے لئے اس کے کردار کی تعریف کی، جنرل باجوہ نے جنرل اولیگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھی دو طرفہ فوجی تعلقات کو مزید بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے۔اُن کا کہنا تھا روس نے حال ہی میں خطے میں پیچیدہ مسائل کے حل میں مثبت کردار ادا کیا ہے، پاکستان خطے میں تنازعات کے خاتمے کے لئے اپنا کردار جاری رکھے گا اور خطے کو متحد رکھنے کے لئے کردار ادا کرے گا۔
قوموں اور مُلکوں کے تعلقات میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل اور دائمی نہیں ہوتیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اِن میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے،اِسی کی روشنی میں مُلکوں کی خارجہ پالیسی بھی بدلتی رہتی ہے، زیادہ دور نہ جائیں تو بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد تغیر پذیر حالات کے تحت مُلکوں کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسیاں اِس امر کا کافی ثبوت ہیں۔دوسری عالمی جنگ میں جو مُلک باہم برسر پیکار تھے اور ایک دوسرے کو تاراج کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے تھے، اب یورپی یونین کی شکل میں ایک متحدہ بلاک بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں،ان سب نے اِس مقام تک پہنچنے کے لئے اپنے تکلیف دہ ماضی پر مٹی ڈالی، تلخیوں کو فراموش کیا، رنجشوں کو درگزر کیا اور ایک نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھے، تب اُنہیں ایک بلاک کی شکل حاصل ہوئی،اب یہ مُلک اِس اتحاد کے فوائد سے مستفید ہو رہے ہیں،لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ آنے والے عشروں میں دوستانہ تعلقات کا یہ جذبہ اِسی طرح برقرار رہے گا اور محبت کے جوچشمے اِس وقت یورپی یونین کے دریاؤں میں بہہ رہے ہیں وہ ہمیشہ اسی طرح موجزن رہیں گے۔عین ممکن ہے حالات کسی وقت نئی کروٹ لیں اور ان مُلکوں کی خارجہ پالیسی کوئی نیا موڑ مُڑ جائے۔
روس اگرچہ پاکستان کا پڑوسی ہے،لیکن ستم ظریفی یہ رہی ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان نے اپنے دوست ہمسائے میں تلاش کرنے کی بجائے ہزاروں میل دور امریکہ کی شکل میں تلاش کئے،اگرچہ اس دور کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے والے اس وقت کے حالات کے تناظر میں ایسے فیصلوں کو غلط بھی نہیں کہتے تاہم آج پاکستان کو جن حالات کا سامنا ہے اور عشروں کی دوستی کے دعویدار امریکہ نے اپنے نئے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر خطے میں اپنے نئے دوست تلاش کر لئے ہیں، اُن میں پاکستان کا بھی حق ہے کہ وہ بھی اپنی خارجہ پالیسی کے نئے اُؑ فق تلاش کرے اور اپنے مفادات کو نئی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ کرے،پاکستان کو قیام پاکستان کے ساتھ ہی اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے جو خدشات لاحق ہو گئے تھے ان کی روشنی میں اُسے ایسے دوستوں کی تلاش تھی جو اس کی دفاعی ضروریات میں تعاون کریں،پھر یہ دور ایسا تھا جب وسائل بھی محدود تھے اور جدید ٹیکنالوجی تک بھی پاکستان کی رسائی نہ تھی،لیکن اِن تمام برسوں میں پاکستان اب اپنی دفاعی پالیسیوں کے حوالے سے جس مقام پر فائز ہو گیا ہے اور چین جیسے دوست ملک کے تعاون سے اس نے دفاعی ہتھیار اور جدید ترین جنگی طیارے بنانے میں بھی اپنی صلاحیتیں منوا لی ہیں۔اُن کا تقاضا ہے کہ پاکستان اِس ضمن میں غیر ملکی بیساکھیوں کے سہارے سے آزاد ہو، اِس وقت پوزیشن یہ ہے کہ محدود پیمانے پر ہی سہی پاکستان کے بنائے ہوئے جنگی طیاروں کے خریدار دُنیا میں موجود ہیں اور اِس شعبے میں جوں جوں پاکستان آگے بڑھے گا،اپنا سکہ جمائے چلا جائے گا۔
حالیہ برسوں میں پاکستان دہشت گردی کی طوفانی لہروں سے گزرا ہے اور دو عشروں کی اذیت ناک کاوشوں کے بعد اُس نے اِس پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ روس کی جانب سے عالمی فورموں پر اس کا اعتراف موجود ہے اور کئی مقامات پر روسی مندوبین نے اِس سلسلے میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ روسی افواج پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے مقابلے کی جنگی مشقوں میں حصہ لے چکی ہیں اور ان کے فوجیوں نے پاکستانی افواج کے جذبے اور صلاحیتوں کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور ان کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لیا، چنانچہ بھارت نے جب کبھی پاکستان پر یہ الزام لگانے کی کوشش کی کہ وہ ریاستی طور پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، روسی نمائندوں نے ہمیشہ ڈٹ کر اس الزام کو ردّ کیا اور اس تھیسز کو نمایاں کیا کہ جو مُلک خود دہشت گردی کا شکار ہے وہ کیونکر دہشت گردی کو سپانسر اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔ بھارت اس روسی رویئے پر خاصا سیخ پا بھی رہا،لیکن روس کے نمائندوں نے جو بات کہی اُس پر ڈٹ گئے۔
چند برس سے دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون فروغ پذیر ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف،وزیر دفاع خرم دستگیر خان اور وزیراعظم کے سیکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ نے بھی روس کا دورہ کیا،انہی دوروں کے تسلسل میں اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ روس کے دورے پر گئے۔اپنے عہد میں جنرل(ر) راحیل شریف نے بھی روس کا دورہ کیا تھا،اِسی طرح روسی سیکیورٹی حکام، وزیر اور فوجی کمانڈر پاکستان کے دورے پر آ چکے ہیں اور دفاعی تعاون مسلسل آگے بڑھ رہا ہے،جدید ہتھیاروں اور جہازوں کی خریداری پر بھی دونوں ممالک میں بات چیت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔یہ تمام تر تعاون خطے کی جیو پولیٹیکل صورتِ حال میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور عالمی سیاست میں جو تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں اُن کے پیشِ نظر خطے کے ممالک قریب تر آ رہے ہیں۔ روس افغان مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے میں بھی کوشاں ہے،چین کا کردار بھی اِس سلسلے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور وہ وقت دور نہیں جب خطے کے مُلک مل کر ایک بڑا بلاک بنا سکتے ہیں،ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارت اپنی پالیسیوں اور سوچ کو تبدیل کرے اور جنگ و جدل کو خیر باد کہہ کر امن کی شاہراہ پر گامزن ہو تاکہ خطے کے اربوں عوام خوشحالی کے نئے سفر پر چل سکیں۔روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایسے ہی دور کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -