’’نپولین عاشق رسولﷺ تھا‘‘ مشہور زمانہ فرانسیسی جرنیل کی شخصیت کا وہ پہلو جسے انگریزوں نے چھپانے کی کوشش کی تھی
لاہور(ایس چودھری)اٹھارویں صدی کی آخری دہائی میں فرانس کے شہنشاہ اور سپہ سالار نپولین بونا پارٹ نے تاج انگلستان کو تگنی کا ناچ نچا دیا تھا ۔ وہ مسلمانوں کے بہت قریب ہوگیا تھا اور اسلام کا مجاہد بن کریورپ ،عرب اور ہندوستان میں اسلام کا قانون نافذ کرنا چاہتا تھا ۔ایک کٹر عیسائی خاندان کا فرد ہونے اور بعد میں ملحدانہ نظریات رکھنے والے دنیا کے اس عظیم جرنیل اور شہنشاہ کی زندگی رسول اللہ ﷺ کی سیرت مبارکہ اور قرآن کے مطالعہ نے بدل ڈالی تھی ۔خاص طور پر جب اس نے مصر کی فتح کے بعد شیر میسور ٹیپو سلطان کے ساتھ عسکری معاہدہ کرنے کی جانب ہاتھ بڑھایا تو سلطنت برطانیہ میں کھلبی مچ گئی اوربونا پارٹ کے خلاف بڑی جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے سلطان ٹیپو کو راستے سے ہٹا دیا گیاتھا ۔مورخین کے مطابق اگر بونا پارٹ کو چند ماہ کی مہلت مل جاتی تو وہ سلطان ٹیپوکی مدد کو پہنچ جاتا اور ہندوستان کے ساتھ مل کر وہ فرنگی راج کا خاتمہ کردیتا ۔بونا پارٹ نے کئی یورپی ملکوں کو فتح کرلیا تھا اور بر اعظم افریقہ تک اسکی عملداری ہوگئی جس سے برطانوی سلطنت کو اپنا سورج غروب ہوتا دکھائی دینے لگا تھا۔ انگریزوں نے بونا پارٹ کے خلاف جہاں پروپیگنڈہ سے کام لیکر اسکی شخصیت کو مسخ کیا وہاں جرمنی کے ساتھ اتحاد کرکے بونا پارٹ کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔
کئی مورخین نے لکھا ہے کہ بونا پارٹ نے جنگوں میں شکست اور کمزوری کے دوران اور خاص طور پر اس وقت جب برطانوی فوج فرانس کی سرحد وں کو تاراج کرچکی تھی ،بونا پارٹ نے وہ رات انتہائی پریشانی میں گزاری اور اللہ کے حضور حضرت امام حسینؓ کو وسیلہ بنا کر ایک درخواست کی تھی ۔ جید عالم دین اور اردو شاعر علامہ پروفیسر ڈاکٹر سید ضمیر اختر نقوی جنہوں نے 50 سے زائد کتب بھی لکھی ہیں ،انہوں نے بونا پارٹ کی اس درخواست کو منظوم کیا تھا جس کے یہ اشعار قابل غور ہیں
تعریف کروں کیا تری احمد کے نواسے
نسبت ہے تری ذات کو محبوبِ خدا سے
تْو وہ ہے کہ جس کا نہیں ثانی دو جہاں میں
پہنچی ہے خبر ہم کو یہ شاہِ دو سرا سے
حسرت تھی رسولانِ گرامی کو بھی جس کی
ہے مرتبہ تجھ کو وہ ملا ذاتِ خدا سے
محقیقین کا کہنا ہے کہ 1798ء میں جب نپولین نے مصر پر یلغار کی تواسلامی تعلیمات اور تمدن نے اسکو اپنا گرویدہ بنا لیا۔وہ ایک سال تک مصر میں رہا ۔ مصرمیں قیام کے دوران ہی 6دسمبر1798ء کو مشہور فرانسیسی اخبار ’’Gazzette National ou Le Moniteur Universel‘‘میں یہ خبر شائع ہوئی کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اس نے اپنا نام علی نپولین رکھ لیا ہے۔نپولین کے والدین کے والدین کیتھولک عیسائی تھے۔لہذا اس نے کلیسا سے اختلاف کے پیش نظر ظاہری طورپر اپنے اطوار نہیں بدلے تھے ۔ وہ مصری علما سے ملتا جس سے اسے اسلامی تعلیمات سے مکمل آگاہی ہوئی ۔اس نے اسلامی فقہ کے مطابق سزاوجزا کے قوانین کا اطلاق کیا۔
مصری میں قیام کے دوران بونا پارٹ نے عید میلاد النبیﷺ کے دن فرانسیسی فوج کو قاہرہ کی سڑکوں پہ خصوصی پریڈ کرنے کا حکم دیا اور اللہ کے رسول ﷺ سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا ۔نپولین نے اگست 1789ء میں مصر کے شیخ السلام کو ایک خط بھی لکھا کہ ’’میں تمام دانشوروں کوساتھ ملا کر دنیا میں قرآن کے اصولوں پہ مبنی ایک منظم حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔صرف قرآن پہ عمل کر کے ہی انسان سچی خوشیاں پا سکتا ہے۔‘‘
نپولین بونا پارٹ کورسول عربیﷺ کی حیاتِ مبارکہ نے بے حد متاثر کیاتھا ۔ امریکی مورخ،جوان کول(Juan Cole)نے اپنی کتاب’’
Napoleon's Egypt: Invading the Middle East ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ سچ ہے،نپولین دل سے حضرت محمدﷺ کا احترام کرتا تھا‘‘فقہ کونسل نارتھ امریکہ کے مطابق بھی بونا پارٹ نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد اسکے نظریات تبدیل ہوگئے تھے ۔معروف محقق اینڈریونائٹن نے اپنے ایک مضمون میں نپولین بونا پارٹ کی رسول اللہﷺ سے محبت کو بڑے شاندار الفاظ میں بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ بونا پارٹ مسلمانوں کے نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ سے بے حد متاثر تھا اور اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس نے ان پر عمل کرنے کی کوشش کی اور اسلامک لاء کو طرز زندگی کے طور پر نافذ کیا تھا۔نپولین کی اسلام اورنبی مکرم ﷺ سے محبت کی بنا پر کئی مصری دانشوروں نے نپولین کو سلطان الکبیر کا خطاب بھی تھا ۔ نپولین نے بعد ازاں Napoleonic Code کو فرانس ،اٹلی،ہالینڈ،بیلجئم،پولینڈ ،جرمنی وغیرہ میں رائج کیا ۔اس کوڈ کی کئی دفعات اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔