وزیراعظم نے ایران میں کیا کہا؟

وزیراعظم نے ایران میں کیا کہا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم آفس کے ترجمان نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کا ایران میں بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنے کے متعلق وزیراعظم کے بیان پر بہت بحث مباحثہ کیا جا رہا ہے، وزیراعظم عمران خان غیر ریاستی عناصر کی بات کر رہے تھے، جو بیرونی عناصر کے زیر اثر پاکستان میں سرگرمیاں کرتے ہیں یا پاکستان سے کوآرڈی نیشن کرتے ہیں جیسا کہ کلبھوشن کیس میں مقامی سہولت کار تھے،ایسے میں ایران، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی، وزیراعظم نے دورہئ ایران میں بلوچستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہی واضح طور پر بیان کیا۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پورے ریجن میں امن کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔وزیراعظم کے بیان کو کسی دوسرے تناظر سے منسلک کرنا اُن کے اظہار کی غلط تشریح کرنا ہے، جو کسی طور پر بھی پاکستان کی خدمت نہیں۔
وزیراعظم نے ایران میں جو کچھ فرمایا وہ اُن کی اپنی زبان سے، اُن کے اپنے الفاظ میں الیکٹرانک میڈیا سے براہِ راست سُن لیا گیا، جنہوں نے یہ الفاظ خود اپنے کانوں سے سُنے اُنہیں اگر وزیراعظم کا وہ مفہوم سمجھ نہیں آیا،جو وہ اپنے سننے والوں کو سنانا اور سمجھانا چاہتے تھے یا وہ وزیراعظم کی بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے تو یہ بات قابل ِ فہم ہو سکتی ہے تاہم ایسے خواتین و حضرات کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے وزیراعظم کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سُنا وہ تو اُن کی زبان سے نکلنے والے الفاظ خود سُن رہے تھے، جو وزیراعظم انگریزی زبان میں ادا کر رہے تھے، جن لوگوں کو اُن کی انگریزی گفتگو سمجھ نہیں آئی یا جو اس زبان سے نا بلد تھے اُن کی بات تو دوسری ہے ممکن ہے اُنہیں یہ انتہائی نازک اور باریک گفتگو سمجھ نہ آئی ہو،لیکن اِن سننے والوں میں بہت سے ایسے بھی ہوں گے،جنہوں نے اس کا مفہوم وہی سمجھا ہو گا جو وزیراعظم سمجھانا چاہتے تھے،جو لوگ براہِ راست انگریزی میں وزیراعظم کا بیان نہیں سُن سکے،اُنہیں دو دوسرے ذرائع پر انحصار کرنا پڑا۔ ایک تو الیکٹرانک میڈیا پر اس کا ترجمہ ہوا، دوسرے اخبارات میں اس کی رپورٹنگ ہوئی۔
اب اگر یہ بیان اخبارات میں سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع ہوا ہے یا کسی اینکر نے پوری گفتگو کا ایک ٹکڑا بیان کر دیا ہے۔اس کا بہترین حل تو یہی ہے کہ دفتر خارجہ یا وزیراعظم آفس اِس بیان کا متن جاری کر دے اِس طرح تمام بیان جب لوگوں کے سامنے آئے گا تو وہ اس کی درست تفہیم کر سکیں گے،ساری دُنیا کی حکومتوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ کسی صدر، وزیراعظم یا کسی بھی ریاستی عہدیدار کی کوئی بات اگر متنازع ٹھہرتی ہے یا یہ شکایت پیدا ہوتی ہے کہ پوری بات صحیح تناظر میں نہیں سمجھی گئی تو متنازعہ بات کا پورا متن جاری کر دیا جاتا ہے،یہاں بھی ضرورت تھی کہ جونہی وزیراعظم کے بیان پر تبصرے شروع ہوئے تھے، دفتر خارجہ بیان کا متن جاری کر دیتا تاکہ تبصرے کرنے والے بیان کا درست متن پڑھ کر تبصرہ کرتے اور وہ مفہوم نہ نکالتے جس پر وزیراعظم آفس کو اعتراض ہے کہ ”سیاق و سباق سے ہٹ کر“ پیش کیا گیا، جب تک پورا بیان سامنے نہ ہو اس وقت تک یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سیاق سے کہاں ہٹا گیا ہے اور سباق سے کہاں،لیکن اب تک کسی سرکاری ادارے کی جانب سے وزیراعظم کے اس بیان کا متن جاری نہیں ہوا،بلکہ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر نے جو اس دورے میں وزیراعظم کے ہمراہ تھیں اس بیان کی نہ صرف کھل کر حمایت کی،بلکہ جوشِ جذبات میں مزید الفاظ کا اضافہ بھی کر دیا، اب وزیراعظم کے بیان کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے بیان پر بھی لے دے ہو رہی ہے تو اتنی وضاحت کافی نہیں ہے کہ بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ بیان کا مصدقہ متن دفتر خارجہ جاری کرے تاکہ اس کی روشنی میں تبصرے کئے جائیں، اور حکومت کا نقطہ نظر کھل کر سامنے آسکے۔
وزیراعظم کے بیان کو غیر ملکی الیکٹرانک میڈیا نے بھی رپورٹ کیا ہے اور یہ بیان اُن کی ویب سائٹس پر بھی موجود ہے، اِس لئے اگر وزیراعظم کا بیان بھی دفتر خارجہ کی ویب سائٹ پر رکھ دیا جائے یا ٹویٹ کر دیا جائے تو دُنیا بھر کا میڈیا اِس متن سے موازنہ کر کے اپنے متن کی تصحیح کر لے گا اور یوں بیان پڑھنے والے اور اِس پر ہونے والے تبصروں سے استفادہ کرنے والے درست بات درست تناظر میں سمجھ جائیں گے۔
وزیراعظم نے جرمنی اور جاپان کی دشمنی اور پھر صلح کی تاریخ پر بھی بات کی تھی، اس پر بھی مخالفانہ تبصرے ہو رہے ہیں اور بعض غیر ملکی مبصرین اس پر خندہ استہز ا کا رویہ بھی اپنائے ہوے ہیں اس بارے میں اتنی وضاحت تو حکومت کے بعض حامیوں کی جانب سے ضرور آئی ہے کہ وزیراعظم دراصل جرمنی اور فرانس کہنا چاہتے تھے،لیکن اُن کی زبان سے جرمنی اور جاپان نکل گیا،لیکن اگر اس وضاحت کی روشنی میں اُن کا پورا بیان پڑھا جائے، جس میں انہوں نے کہا کہ جرمنی اور جاپان نے ایک دوسرے کے لاکھوں لوگ مار دیئے اگر موخرالذکر کی جگہ فرانس پڑھا جائے تو بھی بات سمجھ میں نہیں آتی،کیونکہ فرانس نے تو جرمنی کی مزاحمت نہیں کی تھی نہ اس کے کوئی فوجی یا سویلین مارے تھے، لاکھوں لوگ کیسے مار دیئے گئے؟ جہاں تک جرمنی اور جاپان کا تعلق ہے وہ دونوں تو اتحادیوں کے خلاف تھے اِس لحاظ سے وہ حریف نہیں،بلکہ حلیف تھے، اِس لئے ان کے ایک دوسرے کے فوجی مارنے کا کیا سوال؟ اس لئے یہ ضروری ہے کہ دفتر خارجہ دونوں معاملوں پر تفصیلی وضاحت جاری کرے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ وزیراعظم نے کیا کہا اور سننے پڑھنے والوں نے کیا سنا اور سمجھا،اگر درست متن جاری نہ ہوا تو پھر لوگ حسب ِ خواہش اور حسب ِ منشا تبصرے تو کرتے رہیں گے اور زیب داستاں کے لئے کچھ نہ کچھ بڑھاتے بھی رہیں گے۔

مزید :

رائے -اداریہ -