اٹھارہویں ترمیم اور پی پی پی
وزیراعلیٰ سندھ نے ایک بار پھر اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے بیان جاری کیا ہے اور پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ دی کہ اس میں ترمیم نہیں ہو گی۔
ظاہر ہے کہ ترمیم مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ووٹوں کے بغیر نہیں ہو سکتی اور مسلم لیگ (ن) اس لئے ترمیم کے حق میں نہیں کہ اسی ترمیم کے سبب میاں نوازشریف کو تیسری مرتبہ ملک کا وزیراعظم بننے کا موقع ملا تھا، اگرچہ پارلیمانی جمہوریت میں کسی بھی رہنما پر یہ پابندی عائد نہیں کی جا سکتی کہ وہ کتنی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ رکھ سکتا ہے، لیکن بعض روایات میں وزیراعظم دو مرتبہ سے زائد حکومت پر براجمان نہیں رہے۔
برطانوی پارلیمانی نظام میں بھی ٹونی بلیئر تین بار وزیراعظم رہے دوسرے پارلیمانی نظاموں میں وزرائے اعظم چار چار مرتبہ بھی عہدہ پرموجود رہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو سترہ برس تک وزیراعظم رہے اور صرف اپنی موت پر ہی اس عہدہ سے فارغ ہوئے۔ ان کی بیٹی پندرہ برس تک بھارت کی حکمران رہی اور یہ ایک المناک اتفاق ہے کہ نہرو خاندان کے تمام حکمران عہدہ پر ہوتے ہوئے موت سے ہمکنار ہوئے۔ ایک کو طبعی موت ملی اور دو دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔ نیتن یاہو اسرائیل کے وزیراعظم بھی پانچویں بار منتخب ہو چکے ہیں۔
اسی طرح ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد بھی تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے بعد اب ترانوے برس کی عمر میں ایک بار پھر ملائیشیا کے وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ بات صرف یہ تھی کہ نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے لئے اٹھارویں ترمیم کی حمایت کر رہے تھے۔البتہ وفاق کی حامی اور صوبائی خود مختاری کو وفاق کے لئے ایک مضبوط عنصر سمجھنے والی جمہوری قوتیں اپنے حساب سے اس ترمیم کی حمایت کرتی رہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔
اٹھارہویں ترمیم دراصل ضیاء الحق اور دیگر فوجی آمروں کی مطلق العنانیت کے خلاف جمہوری قوتوں کا ردعمل ہے اور اس کے پیچھے پاکستان کی جمہوری جدوجہد کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان میں مرکزیت پسند قوتوں نے ہمیشہ جمہوریت کو مرکز کی مضبوطی کے لئے خطرہ کے طور پر عوام کے سامنے پیس کیا۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے ممکن حد تک صوبائی خود مختاری کو پامال کیا۔ ایوب دور میں بنگال، ضیاء الحق کے دور میں سندھ اور مشرف دور میں بلوچستان کے حقوق پامال کئے گئے۔
بلوچستان کے حقوق کی پامالی کا آغاز تو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، لیکن ایوب خان بھٹو اور جنرل مشرف نے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کے ساتھ زیادتی کی انتہا کر دی۔ بھٹو،ایوب خان اور یحییٰ خان کے ہاتھوں بنگالی عوام پر ہونے والے ظلم و زیادتی اور استحصال کو بخوبی جاننے کے باوجود بلوچستان کے ساتھ وہی سلوک کر گئے، انہیں بھی مرکزیت پسند حکمران ہی تصور کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ اپنے خلاف قتل کے مقدمے کے بعد وہ اپنے آپ کو سندھ کی دھرتی سے جوڑتے رہے، لیکن برسراقتدار بھٹو تاریخ میں مرکزیت پسند ہی ٹھہریں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے اسی اقدام نے پاکستان کی تاریخ کا پلو اس طرح پکڑ لیا ہے کہ چالیس برس گزرنے کے بعد بھی بلوچستان کے عوام اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں۔ اب ایک اور عذاب ان پر مسلط ہو چکا ہے اور وہ مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان کے ہزارہ قبائل اس دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خون منجمد کرنے والی سردیوں کی راتوں میں ہزارہ بچے اور عورتیں کوئٹہ کی یخ بستہ سڑکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔اور ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ، گزشتہ دنوں ایک بار پھر چار روز تک کوئٹہ کی سڑکوں پر دہشت گردی کے خلاف دن رات مظاہرہ کرتے رہے۔
ان کے ان مسلسل مظاہروں اور احتجاج کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ اب تک برآمد نہیں ہو سکا۔ یہ دہشت گردی شاہد وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران کے حوالے سے کوئی پیغام بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ہزارہ قبائل کے افراد کی زندگیاں مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں بنائی جا سکیں۔
یہ ان تمام حکومتوں کی ناکامی کا مظہر ہے جو گزشتہ ایک عشرہ سے پاکستان میں قائم رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو اٹھارہویں ترمیم کی حمایت کرتے وقت بلوچستان میں اپنی پارٹی کے قائد کے کردار پر بھی بلوچ عوام سے معافی مانگنا ہو گی، کیونکہ صوبائی خود مختاری پر آئین کی تشکیل کے بعد پہلا حملہ آئین بنانے والے قائد عوام نے کیا تھا۔