ٹورازم کے فروغ کا خواب!
اگلے روز وزیراعظم وانا میں ایک جلسہ ء عام سے خطاب کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ عنقریب یہ خطہ جو صدیوں سے جدید ترقی و تعمیر کے فیوضات و برکات سے ناآشنا رہا تھا اب انشاء اللہ ہر لحاظ سے ملک کے دوسرے صوبوں کے شانہ بشانہ خوشحالی اور ترقی کی طرف دوڑتا نظر آئے گا۔ انہوں نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی منصوبوں کا ذکر کیا۔ مردوں اور خواتین کے لئے ڈگری کالج، سڑکیں، ہسپتال، سکول، پینے کے لئے صاف پانی اور آبپاشی کے لئے ڈیم تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ یہ بھی کہا کہ ضلع وانا میں 100 کلومیٹر پکی سڑکیں بنائی جائیں گی اور اسی سال ان تمام پراجیکٹوں پر نہ صرف یہ کہ کام کا آغاز ہو گا بلکہ ان کی تکمیل بھی کر دی جائے گی اور اسی طرح سابق فاٹا کے لئے ہر سال 100ارب روپے انہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ووٹ لینے کے لئے ایسی خوش آئند باتیں نہیں کر رہے،بلکہ دل سے چاہتے ہیں کہ ان قبائلی علاقوں میں تعلیم، صحت، صنعت، زراعت اور سپورٹس کا دور دورہ ہو اور امید ظاہر کی کہ بہت جلد وہ قبائلی لوگ جو باہر کے ملکوں میں اپنے خاندان کی مالی کفالت کے لئے گئے ہوئے ہیں، واپس آ جائیں گے، کیونکہ ان کو اپنے وطن میں ایسی نوکریاں میسر آئیں گی کہ انہیں اپنے عزیز و اقربا سے جدائی کی اذیتوں سے رہائی مل جائے گی۔
عمران خان ایسی تسلیاں اور باتیں اقتدار میں آنے سے پہلے بھی دیتے اور کہتے رہے ہیں۔ یہ گویا ان کا خواب ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ خواب تو خواب ہوتے ہیں۔وہ انفرادی بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی بھی۔ جو شخص خواب نہیں دیکھتا وہ شرفِ انسانی سے گر جاتا ہے۔ آرزوئیں اور خواب گویا بنی نوعِ انسان کا ایک اجتماعی ورثہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب خواب دیکھتے ہیں۔
بعض خواب سہانے کہلاتے ہیں اور بعض ڈراؤنے (Nightmeres)…… یہ خواب ہمارے سماجی مراتب کے مطابق چھوٹے بڑے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کالج کے کسی نوجوان لڑکے / لڑکی کو ٹٹول کر دیکھیں اس کے سینے میں تمناؤں کی ایک دنیا آباد ہو گی…… یہ تمنائیں بر آتی ہیں یا نہیں اور خواب بکھرتے ہیں یا پورے ہوتے ہیں، یہ دوسری بات ہے۔
قومی سطح کے لیڈروں کے خواب بھی قومی سطح کے ہوتے ہیں۔ اس لئے میں جب بھی عمران خان کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ ان کی آرزو ہے کہ باہر کے ممالک سے لوگ ہمارے پاکستان میں نوکریوں کی تلاش کے لئے آئیں، ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلباء اور طالبات کے لئے سکالر شپس کی فراوانی ہو، برآمدات کو فروغ حاصل ہو اور سیاحوں کی ریل پیل ہو تو مجھے ان کی آرزوؤں کی صداقت پر تو کوئی شبہ نہیں رہتا۔
البتہ اگر کوئی شک ہوتا ہے تو یہ ہے کہ ان کی امیدیں طویل اور ملکی وسائل قلیل ہیں۔ وسائل کثیر نہیں ہوں گے تو امیدوں اور خوابوں کے تانے بانے کیسے مضبوط اور دیرپا ہوں گے۔ اب وزیراعظم کے اس ایک ارمان کو ہی لے لیں کہ جس کا اظہار وہ گاہے بگاہے لیکن بڑے تواتر کے ساتھ کرتے رہتے ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں سیاحت کے بڑے روشن امکانات موجود ہیں اور پاکستان ایک جنت نظیر ملک ہے اور اس میں کوہسار، سمندر، سبزہ زار، آبشار، ریگستان، میدان، نہریں، جھیلیں، جنگلات، ثمردار درخت، مال مویشی، چرند پرند، چمکتے دمکتے شہر، شاداب اور آباد قصبے اور لہلاتے دیہات، شاہرائیں، الغرض کون سے ایسے فطری مناظر ہیں جو موجودہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ انڈیا، پاکستان کے مقابلے میں ایک بڑا ملک ہے اور وہاں فطری مناظر و مظاہرات کی کمی نہیں لیکن پاکستان رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اس کا پانچواں بلکہ چھٹا حصہ ہونے کے باوجود کئی شعبوں میں اس سے کہیں برتر اور بہتر ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا میں جو برف پوش پہاڑ ہیں ان کے متبادل ہمارے ہاں بھی ہیں۔ پاکستان کا سارا شمالی علاقہ برف پوش کوہستانوں اور وادیوں سے اٹا پڑا ہے۔
انڈیا میں اگر شملہ، ڈلہوزی، وارجیلنگ اور کانگڑہ وغیرہ ہیں تو پاکستان میں مری، ایوبیہ، نتھیا گلی، سوات، کالام، منگورہ، چترال، مظفر آباد، ہنزہ، نگر، گلگت اور یاسین جیسے دلربا اور صحت افزاء مقامات کی بہتات ہے۔ انڈیا کا مقبوضہ کشمیر، کبھی ضرور جنت نظیر کہلاتا تھا لیکن آج تو حال یہ ہے کہ پون صدی سے انڈین ہندوتاکی مسلم دشمنی اور ہٹ دھرمی نے اسے دوزخ نظیر بنا رکھا ہے۔ وادیء کشمیر کے مقابلے میں ہماری وادیء سوات کے وسیع اور سرسبز قطعاتِ اراضی واقعی ”فردوس بر روئے زمین است“ کے مناظر پیش کرتے ہیں۔
میری نظر میں اگر پاکستان کے محکمہ ء سیاحت کو کسی دشواری کا سامنا ہے تو وہ ان مقاماتِ سیاحت میں دہشت گردی کی دشواری اور خطرہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں اگرچہ پاکستان نے اس بلا پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن آئے روز پھر بھی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے واقعات دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں جو دلدوز حادثات رونما ہوئے اور جس طرح ملک دشمن عناصر نے ہزارہ برادری اور تربت کے نواحی علاقوں میں بسوں کو روک کر بے گناہ مسافروں کو قتل کیا وہ غیر ملکی سیاحوں کو کیا پیغام دے رہا ہے؟ یہ درست ہے کہ ہم نے سادرن کمانڈ کو تربت میں شفٹ کر دینے کی پلاننگ کی ہے، ایک نئی سکاوئٹس کور بھی کھڑی کی جا رہی ہے اور پاک ایران سرحد پر 1000کلومیٹر طویل باڑ کی تعمیر بھی شروع ہو گئی ہے لیکن خدا نہ کرے اگر شمالی علاقوں (گلگت،بلتستان، چترال، سوات، مری اور کالام وغیرہ) میں ایسا ہی کوئی دلدوز واقعہ پیش آ گیا تو وزیراعظم کا وہ خواب جو وہ اکثر دیکھتے اور دکھاتے رہتے ہیں کہ پاکستان سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے، اس کا کیا بنے گا؟
ٹورازم کے محکمہ میں کرنے کے کام بے شمار اور اَن گنت کام ہیں۔ مثلاً سیاحتی مقامات تک آمد و رفت کا مواصلاتی انفراسٹرکچر تعمیر کرنا، روڈ ریل اینڈ ائر ٹرانسپورٹ،قیام و طعام کے انتظامات، مترجموں (Interpreters) کی پوری ایک کور کا قیام، تشہیری مہم اور سب سے بڑھ کر سیکیورٹی کے انتظامات…… دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ محکمہ ء سیر و سیاحت کی زندگی اور موت کا مسئلہ امن و امان کے قیام کے ساتھ وابستہ ہے۔ بلاشبہ یہ محکمہ ملک کے لئے زرِ مبادلہ لا سکتا ہے، روزگار کے مواقع فراہم کر سکتا ہے اور کاروباری سرگرمیوں کو تاحدّ ِ امکان آگے بڑھا سکتا ہے بشرطیکہ سیکیورٹی کے فول پروف اقدامات قائم کر دیئے جائیں۔
خیبرپختونخوا (کے پی) میں پی ٹی آئی نے ابھی حال ہی میں ورلڈ بینک کی طرف سے 100 ملین ڈالر کے اس قرضے کی راہ ہموار کر دی ہے جو ماہ مئی 2019ء میں وہاں کے محکمہ سیاحت کو ملنے والا ہے۔ یہ ٹوٹل 127ملین ڈالر کا پراجیکٹ ہے۔ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) نے نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ECNEC) کو اس پراجیکٹ کی منظوری کی سفارش کر دی ہے۔
یہ سفارش عالمی بینک کی طرف سے 100ملین ڈالر قرض کے لئے ایک پیشگی شرط تھی جو پوری ہو گئی ہے اور اب یہ پراجیکٹ آگے کی منزلیں / مراحل طے کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ 127ملین ڈالر کے اس منصوبے کے اغراض و مقاصد چند در چند ہیں مثلاً انفراسٹرکچر کی فراہمی، محکمے کے اثاثہ جات میں اضافہ اور مقاماتِ سیاحت پران اقدامات کی تکمیل جن کی تفصیل میں نے سطورِ بالا میں آپ کے سامنے رکھی ہے۔ عالمی بینک نے اس 100ملین ڈالر قرض کے لئے جن سیاحتی مقامات کے انفراسٹرکچر وغیرہ پر زور دیا تھا ان میں بالخصوص کالام اور گلیات شامل ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی ابتلاء سے پہلے صرف کے پی میں پچاس ہزار سیاح ہر سال آیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ 2007ء میں اچانک بند ہو گیا اور 10برس تک یہاں کے سیاحتی مراکز میں بین الاقوامی سیاحوں کی آمد و رفت تقریباً ختم ہو کے رہ گئی۔ اب 2017ء سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے اور سیاحوں کی آمد و رفت اگرچہ گزشتہ سکیل پر نہیں آ سکی لیکن اس میں 60فیصد تک بہتری آ چکی ہے۔
پھر بھی جیسا کہ اس کالم کی اولین سطور میں ذکر کیا گیا،سب سے بڑا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ CPEC کی سیکیورٹی کے لئے پاکستان کو پورا ایک ڈویژن پلس کھڑا کرنا پڑا تھا۔ لیکن سیاحت کے مقامات تو بے شمار اور پاکستان گیر ہیں، ان کی سیکیورٹی کے لئے کتنے ڈویژن کھڑے کرنے پڑیں گے؟…… یہی وہ اندیشہ ہے جو ٹورازم کی ”نقد آور فصل“ کو پھلنے پھولنے اور اس کے فروغ کی راہ میں حائل ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ خواب کہ پاکستان سیاحوں کی جنت بننے والا ہے کوئی ایسا ناقابلِ عمل خواب تو نہیں ہے کہ اس کی خوش آئند تعبیر نہ مل سکے۔…… اس لئے مجھے یہ کہنے میں کچھ باک نہیں کہ عالمی بینک کی طرف سے 100ملین ڈالر کا یہ قرض پاکستان کے محکمہ ء سیاحت کی تدریجی اور ہمہ جہتی ترقی کا ایک لٹمس ٹیسٹ بھی ہو گا۔