بداخلاقی کیس: ایس ایچ اوکی معطلی ، کانسٹیبلوں کی تنزلی صرف حقائق چھپانے کے مترادف، جمشید دستی

  بداخلاقی کیس: ایس ایچ اوکی معطلی ، کانسٹیبلوں کی تنزلی صرف حقائق چھپانے کے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مظفرگڑھ (نامہ نگار) عوامی راج پارٹی کے سربراہ اور سابق رکن قومی اسمبلی جمشید احمد خان دستی نے تھانہ روہیلانوالی کے اندر غریب خاتون کیساتھ پولیس ملازمین کے بد اخلاقی(بقیہ نمبر39صفحہ7پر)

کیس میں ایس ایچ او کی معطلی اور تنزلی کو اصل حقائق چھپانے کی رسمی کارروائی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور چیف آف آرمی سٹاف سے اپیل کی ہے کہ وہ تھانہ روہیلانوالی کے کمروں میں غریب خاتون کیساتھ ہونیوالے بد اخلاقی کا از خود نوٹس لیکر قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے پولیس اور تھانوں کا وقار بحال کرانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کریں تاکہ آئندہ کسی پولیس اہلکار کو تھانے کے اندر کسی خاتون کیساتھ ریپ کرنے کی جرات نہ ہوسکے۔ انہوں نے کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تھانہ کی عمارت میں ایک غریب گھرانے کی خاتون کے ساتھ 20 ملازمین کا بد اخلاقی انتہائی شرمناک حرکت ہے، پولیس ملازمین نے خاتون کیساتھ بد اخلاقی کرنے کے بعد اس کو بچوں سمیت غائب کردیا ہے تاکہ وہ داد رسی کیلئے کسی فورم پر بھی رجوع نہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس شرمناک وقوعہ کی اطلاع ملنے پر وہ خود روہیلانوالی پہنچے اور تھانہ کے اندر ایک غریب خاتون کیساتھ ہونیوالے بد اخلاقی کے شرمناک وقوعہ کے حقائق معلوم کیے تو لوگوں نے انہیں بتلایا کہ جس وقت تھانہ کے اندر پولیس ملازمین نے خاتون کیساتھ بد اخلاقی کیا تو اس وقت اس متاثرہ عورت کے دوبچے بھی تھانہ میں موجود تھے جبکہ کئی دیگر افراد تھانہ کے حوالات میں بند تھے، جنہوں نے گینگ ریپ کے وقت متاثرہ خاتون کی چیخ و پکار سنی مگر وہ اپنی بے بسی کی وجہ سے چیخنے چلانے والی عورت کی کوئی مدد نہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس قدر سنگین اور شرمناک وقوعہ سے ڈی پی او کو آگاہ کیا گیا تو ڈی پی او نے قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے زیرحراست عورت کا میڈیکل کراکر پولیس اہلکاروں کیخلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت بد اخلاقی کا مقدمہ درج کرنے کی بجائے ایس ایچ او اقبال بزدار کی ایک رینک کی تنزلی کردی جبکہ کانسٹیبلان کو برطرف اور معطل کرنے کی محکمانہ کارروائی کی جوکہ ایسے سنگین جرم کی کو ئی سزا نہیں ہے کیونکہ معطلی، تنزلی اور برطرفی کو پولیس ملازمین کوئی بڑی سزا ہرگز نہیں سمجھتے اور متعلقہ پولیس اہلکار محکمانہ اپیل کرکے کچھ عرصہ بعد بحال ہوکر واپس آجاتے ہیں جبکہ تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت گینگ ریپ کا مقدمہ درج کیا جاتا تو پولیس ملازمین کو سزائیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ بد اخلاقی کے مرتکب پولیس اہلکاروں نے متاثرہ خاتون اور اس کے بچوں کو بھی غائب کررکھا ہے تاکہ وہ کسی عدالت میں پیش ہوکر اپنے ساتھ ہونیوالے ظلم کے بارے میں فریاد بھی نہ کرسکے جبکہ علاقہ کے پولیس ٹا?ٹوں کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ خاتون کے لواحقین پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں خاموش کرادیں انھوں نے کہا کہ جن غریبوں کا کوئی حامی نہیں ہوتا وہ ان مظلوم طبقات کی آواز بن کر حق سچ کہتے رہیں گے خواہ اس کی انہیں کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔