الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج

  الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تحریک انصاف نے آج ملک بھر میں الیکشن کمیشن دفاتر کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اس کی باقاعدہ کال چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دی اور اس احتجاج کے لئے تحریک انصاف کی تمام ضلعی تنظیموں کو ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ بظاہر اس احتجاج کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور انہوں نے منحرف اراکین  کے خلاف بھیجے گئے کیسوں پر انہیں ڈی سیٹ کرنے کا اعلان نہیں کیا تاہم اکثر سیاسی حلقے اسے فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ سے استعفا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے کیونکہ بقول ان کے سکندر سلطان راجہ کا کردار حد درجہ متنازعہ ہو چکا ہے اور وہ تحریک انصاف کے خلاف پارٹی بن گئے ہیں۔ ان کے اس مطالبے کو چیف الیکشن کمشنر نے رد کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ملک کے بہترین مفاد میں کام کررہے ہیں اور ایسی کوئی وجہ نہیں مستعفی ہونے بارے سوچیں۔ سکندر سلطان راجہ کو جنوری 2020ء میں چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا، 1973ء کے بعد وہ پہلے بیورو کریٹ ہیں جنہیں اس آئینی ادارے کی سربراہی سونپی گئی۔ چند روز پہلے عمران خان نے کہا تھا انہیں موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کہا گیا تھا۔ حالانکہ آئین میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا طریقہ واضح طور پر درج ہے اور اس کی منظوری وفاقی حکومت دیتی ہے۔ ایک دور ایسا بھی تھا جب عمران خان بطور وزیراعظم موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی بہت تعریف کرتے تھے لیکن جب سے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت میں تیزی آئی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کرنا شروع کر دیا۔ تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف جو چارج شیٹ جاری کی ہے۔ اس میں کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں لائے گئے البتہ یہ کہا گیا ہے انہوں نے جانبداری، بددیانتی اور خود غرضانہ طرزعمل کی انتہا کر دی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا جو اجلاس عمران خان کی صدارت میں ہوا، اس میں الیکشن کمیشن کے معاملات کا جائزہ لیا گیا جس میں اس بات پر تاسف کا اظہار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس میں صرف تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر رہا ہے جبکہ تحریک انصاف کو اوورسیز پاکستانیوں نے جو پیسہ بھیجا اسے مکمل طور پر ڈکلیئر کیا گیا ہے۔ ہمارا بار بار یہ مطالبہ ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے فارن فنڈنگ کیسوں کو بھی ساتھ ہی سنا جائے مگر اس مطالبے پر غور نہ کرکے چیف الیکشن کمشنر اپنی جانبداری کو ظاہر کر چکے ہیں۔ ملک میں منحرف ارکان کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام آیا، ان کے خلاف 63اے کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو کیس بھجوائے گئے مگر انہوں نے ان ارکان کو ڈی سیٹ نہیں کیا اور معاملہ دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں، جس سے ان کی جانبداری اور بددیانتی کا اندازہ ہوتا ہے، اس لئے ہم ان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 


تحریک انصاف نے آج ملک بھر میں الیکشن کمیشن دفاتر کے سامنے احتجاج کی جو کال دی ہے، وہ واضح طور پر الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش نظر آتی ہے۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن کے اسلام آباد افس کے سامنے سیاسی جماعتوں مختلف ایشوز پر احتجاج کرتی رہی ہیں تاہم ملک بھر میں الیکشن کمیشن دفاتر کے باہر احتجاج کی کال تحریک انصاف نے پہلی بار دی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کی سماعت 27اپریل سے 29اپریل تک مسلسل کرے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ روزانہ سماعت کرکے ایک ماہ میں اس کیس کا فیصلہ کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو تحریک انصاف نے انٹراکورٹ اپیل میں چیلنج کر رکھا ہے وہاں سے اسے ریلیف بھی مل گیا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کا فیصلہ 30روز میں کرنے کا عدالتی حکم معطل کر دیا۔ تحریک انصاف کی شروع دن سے یہ کوشش ہے کہ اسے طول دیا جائے، یہ کیس آٹھ سال پہلے تحریک انصاف ہی کے اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں دائر کیا تھا جو پارٹی کے بنیادی رکن رہے اور جن کے پاس اس حوالے سے شواہد  اور تفصیلات بھی موجود ہیں۔ اب تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ اس کی طرف سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو کیس دائر کئے گئے ہیں، ان کی سماعت بھی اس کیس کے ساتھ کی جائے حالانکہ وہ کیس بہت بعد کے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ خود تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی عمران خان کی موجودگی میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس کی بنیاد پر تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے اور عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ کرنے کی سازش تیار کی گئی ہے۔ شیخ رشید احمد بھی اسی قسم کی بات کرتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیش گوئی وہ کس بنیاد پر کر رہے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کہتی ہے اس نے الیکشن کمیشن کو تمام ریکارڈ فراہم کر دیا ہے۔ ہر چیز کا ثبوت دے دیا ہے دوسری طرف خلاف فیصلہ آنے کی دہائی دی جا رہی ہے۔ پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف کیس ابھی سکروٹنی کے ابتدائی مراحل میں ہیں جبکہ تحریک انصاف کے خلاف کیس کی سکروٹنی مکمل ہو چکی ہے۔ مدعی کے وکیل نے اپنی بحث بھی مکمل کر لی ہے، اب تحریک انصاف کے وکیل پیش ہوں گے، جس کے بعد فیصلہ آ جائے گا۔ اس مرحلے پر قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے تحریک انصاف احتجاج کی کال کیوں دے رہی ہے؟ الیکشن کمیشن ملک کا ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کے پاس عدالتی اختیارات بھی موجود ہیں، جس طرح کسی عدالت کے فیصلوں پر احتجاج کے ذریعے اثر انداز ہونا غیر آئینی عملی ہے، اسی طرح الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی ایک نامناسب رویہ ہے۔تحریک انصاف کو آئینی و قانونی طور پر اپنے موقف کا دفاع کرنا چاہیے۔ ایک طرف تحریک انصاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر چکی ہے اور دوسری طرف الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج اور چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر آئینی و قومی اداروں کو دباؤ میں لا کر فیصلے رکوانے یا کرانے  کا یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی کا کیا تصور باقی رہ جائے گا۔ تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اسے اپنے تحفظات دور کرنے کے لئے آئینی حدود میں رہ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ کسی بھی آئینی عہدیدار کو اپنے مقاصد کے تحت ناپسندیدہ قرار دے کر استعفے کا مطالبہ کرنا یا اسے دباؤ میں لانے کے لئے احتجاج کی کال دینا ایک ایسا عمل ہے جسے جمہوری اور آئینی حق قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مزید :

رائے -اداریہ -