ترلے منتوں کے باوجود نوجوان کی جان لے لی!

ترلے منتوں کے باوجود نوجوان کی جان لے لی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

معاشرے میں عَدم برداشت کے باعث لڑائی جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ تاہم اس میں تشدد کا تناسب بڑھ جانے کی وجہ سے معاملہ قتل و غارت گری تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے نتیجہ ہنستے بستے گھر ویران،جب کہ جیلیں اور قبرستان آباد ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اس وقت سب سے سنگین صورت حال یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے اور ہولناک واقعات جنم لے رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 13اپریل کو لاہور جنوبی چھاؤنی کے علاقہ گوہاوہ موڑ نئی آبادی بیدیاں روڑ پر بھی پیش آیا جہاں ملزمان نے ایک نوجوان محمد عثمان کو معمولی تلخ کلامی اور جھگڑے کی پاداش میں قتل کر دیا۔محمد عثمان کا واقعہ سے 2روز قبل محلے دار ظفر عرف ظفری سے معمولی تلخ کلامی پر جھگڑا ہوا اس دوران ظفر عرف ظفری کے سر پر اینٹ کا روڑا لگنے سے معمولی چوٹ آئی،محمد عثمان کے والد ظفر عرف ظفری کے زخمی ہونے پر محلے داروں کے ہمراہ اکھٹے ہوکر ظفر عرف ظفری کے گھر صلح کے لیے معافی مانگنے گئے جس پر گھر والوں نے کہا گھر کے اہم افراد موجود نہیں ہیں دوباہ آجانا اس وقوعہ کی اطلاع پولیس کو تو نہ دی گئی مگر ظفر عرف ظفری کے چچا ناظم نے اپنے طور پر بدلہ لینے کی ٹھان رکھی تھی جس کا علم محمد عثمان کے گھر والوں کو تو نہ ہو سکا مگر وہ اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے پریشان تھے محمد عثمان کے والد 13اپریل کو دوبارہ محلے داروں کو ساتھ لے کر ظفر عرف ظفری کے گھر پہنچا اور ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگتا رہا کہ اس کے بیٹے سے انجانے میں ظفر عرف ظفری کے سر پر چوٹ لگ گئی ہے انھیں معاف کر دیا جائے، ظفر عرف ظفری کے چچا ناظم کے سسر صدیق کالیانے کہا یہاں سے نکل جاؤ کوئی صلح نہیں ہم بدلہ لینے والے لوگ ہیں لڑائی جھگڑوں میں ہمارا خاندان جیلیں دیکھ چکا ہے مگر ہم گھبرائے نہیں ان واقعات کی وجہ سے ہماری جائیداد برباد ہو گئی ہے مگر ہم نے پرواہ نہیں کی ہم دیکھیں گے کہ آپ کے ساتھ کیا کرنا ہے محلے داروں نے مقتول کے والد کی سفارش کرتے ہوئے ان کی منت سماجت کی مگر انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور جذبات میں آکر بولتے رہے،گھر جانے والوں کو معاف نہ کیا گیا اور انہیں بے عذت کرکے گھر سے نکال دیاگیا محلے داروں کی بھی پرواہ نہ کی گئی اسی روز علی شیر کا بیٹا سہ پہر کے وقت گھر سے باہر نکلا تو صدیق کالیا کے داماد ناظم اور ظفر عرف ظفری نے گھیراڈال کر اس پر اند دھند فائر نگ کردی جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا اسے قریبی ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گیا۔
 تھانے میں درج ہو نے والی ایف آئی آر میں مقتول محمد عثمان کے والد علی شیر نے موقف اختیار کیا ہے کہ پونے 4بجے دن میرا بیٹا محمد عثمان ولد علی شیر موٹر سائیکل پر اور دوسری موٹر سائیکل پر وقاص ولدرشید گوہاوہ موڑ جارہے تھے کہ سینما والی گلی کے موڑ پر محمد ناظم ولد لال دین فیروز والا ضلع شیخوپورہ اور اس کا بھتیجا ظفر عرف ظفری نے بھی للکارا مارا کہ تمہیں ہمارے ساتھ لڑائی جھگڑے کا مزہ چکھاتے ہیں اور آج تمہیں جان سے ماردیں گے 3  نامعلوم افراد نے ناظم کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ ناظم پکڑ لو آج یہ بچ کر نہ جائے ناظم نے میرے بیٹے کو قتل کرنے کی نیت سے سید ھے فائر کیے تین فائر چھاتی اور جسم کے مختلف حصوں پر لگے دوسرے ملزمان نے بھی اند ھا دھند فائر نگ شروع کردی اور فرار ہو گئے محلے داروں نے ریسکیو 1122کو کال کی زخمی محمد عثمان کو ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا ڈاکٹروں نے بھی اس کی موت کی تصدیق کر دی ناظم نے میرے بیٹے عثمان کو اپنے رشتے دار محمد صدیق کالیا اور ارشد عرف اکا کے مشورہ سے قتل کیا ہے وجہ عناد یہ ہے کہ دوروز قبل میرے بیٹے عثمان کا ان سے معمولی لڑائی جھگڑا ہو اتھاجس رنجش کی بنا پر ناظم وغیرہ نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے مقتول کے والد علی شیر نے روز نامہ پاکستان سے گفتگو کرت ہو ئے بتایا ہے کہ کہ وہ ایک پرائیویٹ سکول میں لیب میں ملازمت کرتا ہے غریب آدمی ہے میرے ساتھ بڑی ناانصافی ہو ئی ہے مجھے انصاف ملنا چاہیے امیروں کے لیے تو چھٹی اور رات12 بجے بھی عدالتیں کھول دی جاتی ہیں مگر ہم غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں،میرا جوان بیٹا میرے بڑھاپے کا سہارا تھا ملزمان نے اسے قتل کرکے بڑا ظلم کیا ہے میری وزیر اعلی پنجاب، آئی جی پو لیس،سی سی پی او لا ہو ر،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن سے اپیل ہے کہ مجھے انصاف ملنا چاہیے اور میرے ملزمان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
 مقتول نے سوگواروں میں دو چھوٹے بھائی دو بہنیں اور غمزدہ والدین چھوڑے ہیں۔ مقتول کے چچا افتخار احمد،عبدالرزاق اوراشفاق احمد نے روزنامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملزمان نے بڑا ظلم کیا ہے وہ خود بھی ملزمان کے گھر معافی کے لیے گئے تھے لیکن انہوں نے معاف کرنے کی بجائے الٹا دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے بھتیجے کو قتل کر دیں گے انہیں یقین نہیں تھا کہ ملزمان ایسا کریں گے اب انہیں بڑا افسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے بچے کو بیرون شہربھجوا دیتے تاکہ اس زندگی محفوظ رہ پاتی، ملزمان،علاقے میں منشیات کا دھندہ کرتے ہیں ملزم صدیق کالیا کی بیگم شہناز منشات کے ایک مقد مے میں اب بھی جیل میں ہے ملزمان کو پولیس کی سر پرستی حاصل ہے انہیں گرفتار ہو نا چاہیے،لاہور پولیس کے سربراہ فیاض احمد دیو نے اس افسوس ناک واقعہ کے بارے میں بتایا ہے کہ انہوں نے وقوعہ کے روز ہی اس واقعہ پر نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے اور انہیں فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا ایس ایس پی انوسٹی گیشن عمران کشور نے روزنامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کہ سی سی پی او کی ہدایت پر ملزمان کا گھیراؤ کیا گیا ہے مقدمے میں موجود تین ملزمان عبوری ضمانت پر ہیں جبکہ ایک مرکزی ملزم کو گرفتار کیا جا چکا ہے باقی ملزمان کی ضمانتیں خارج کروانے کے لیے مقامی انچارج انوسٹی گیشن کو ہدایت کردی گئی ہے انشا اللہ انہیں بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -