ادب آرٹ اور مثالیت۔۔۔فنون لطیفہ کو مثالی مملکت میں پنپنے کا سرے سے موقع ہی نہ دیا جائے
مصنف :ملک اشفاق
قسط: 41
افلاطون نے ادب اور آرٹ کے حوالے سے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”جمہوریہ“ میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ افلاطون نے سنگ تراشی، مصوری، شاعری اور موسیقی پر اپنے خیالات بہت ہی منطقی اور مدلل انداز میں تحریر کئے ہیں۔ افلاطون نے اگرچہ تمام فنون کو انسانی تخلیق کا نام دیا ہے لیکن وہ کچھ فنون کو کافی کڑی تنقید کا نشانہ بناتا ہے جن میں شاعری سرفہرست ہے۔
افلاطون کے خیال میں ایک فنکار یا ادیب اپنے فن یا ادب کو عقلی استدلال کے تحت تخلیق نہیں کرتا بلکہ وہ ایک وجدانی کیفیت میں یہ سب کچھ کرتا ہے۔ اگرچہ اعلیٰ درجہ کے ادب میں کہیں کہیں عقلی استدلال کی جھلک موجود ہوتی ہے لیکن ادب کا زیادہ ترحصہ وجدانی کیفیت کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں موسیقی شعر اور صورت تراشی کے ہر طرز کو نوجوانوں کی تعلیم کا جزو نہیں بننا چاہیے بلکہ صرف ان طرزوں کو اپنانا چاہیے جن سے رو ح کی صحیح اخلاقی تربیت ہو سکے۔ سچا آرٹ ہی اچھا آرٹ ہے آرٹ چونکہ زندگی اور کائنات کی تعبیر اور ترجمانی کا نام ہے اس لیے اسے بھی اس خیر مطلق کا پر تو ہونا چاہیے جس سے زندگی اور کائنات معمور ہے۔ آرٹ کو دراصل اپنا حقیقی مقصد پورا کرنا چاہیے۔
افلاطون شاعری، مصوری اور موسیقی کے بارے میں ناپسندیدیگی کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ” میرے مثالی معاشرہ میں اس قماش کی بدآموزیوں کی گنجائش نہیں ہے“ افلاطون نے غالباً شاعری کو اس لیے بھی قابل گردن زنی قرار دیا کہ شاعر دیوتاﺅں کے متعلق ناشائستہ باتیں کہتے تھے۔ اس کے خیال میں شاعری اور فنون لطیفہ جذبات برانگیختہ کر سکتے ہیں جس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا تھا لہٰذا فنون لطیفہ کو مثالی مملکت میں پنپنے کا سرے سے موقع ہی نہ دیا جائے۔ افلاطون شاعروں کے متعلق کہتا ہے کہ شاعر مجذوب ہوتے ہیں ان کے اور ایک پاگل شخص کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں الہاماً ان پر نازل ہوتا ہے وہ صرف اپنے الہامی لمحات ہی میں شعر کہہ سکتے ہیں۔
افلاطون نے جس طرح شاعر کے مجذوب ہونے کے مو¿قف کو ثابت کیا ہے اس میں بھی قدرے طنز پوشیدہ ہے۔ وہ فلسفی کو شاعر پر ترجیح دینا چاہتا ہے لیکن بعد میں اس کے خیالات اس قدر بدل گئے کہ وہ شاعروں اور شاعری کے حق کو کسی طرح بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس نے اپنی مشہور کتاب ”جمہوریہ“ کے دسویں باب میں شاعری پراعتراضات کئے ہیں۔ ان اعتراضات کی نوعیت اور بنیاد سمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ ہم افلاطون کے فلسفہ اعیان کو اجمالاً سمجھ لیں۔
افلاطون کا خیال تھا کہ ایک ہی قسم(قبیل) کی کئی اشیاءدنیا میں پائی جاتی ہیں۔ ان سب میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ایک شے (اس قبیل کی) تو ایسی ہونی چاہیے جو بہترین اور مکمل ہو اور جس سے بڑھ کر اس قبیل کی کوئی شے نہ ہو سکتی ہو۔ اس کا خیال تھا کہ یہ آئیڈیل یا مثالی شے عالم اعیان یا عالم مثال میں موجود ہے۔ عالم مثال میں ایک مثالی انسان ایک مثالی گھوڑا، ایک مثالی کرسی، (علیٰ ہذالقیاس) موجود ہے۔ دنیا میں موجود کوئی انسان، گھوڑا یا کرسی، اپنی مثال سے بہتر نہیں۔ تمام اشیاءاپنی اپنی مثال کی ادھوری نقول ہیں۔
یہ تو ثابت ہوگیا کہ دنیا کی ہر شے اصل نہیں بلکہ ایک اصل کی نامکمل نقل ہے اب جو شخص اس شے کی نقل اتارتا ہے مثلاً اس کی تصویر بناتا ہے گویا وہ نقل کی نقل کر رہا ہے۔ اس طرح اس کی تخلیق تیسرے درجے کی نقالی ہے اور حقیقت سے بہت بعید۔ اس نے مصوری اور شاعری کو نقل پر مبنی پایا۔ مصور بھی اشیاءکی نقل اتارتا ہے اور شاعر بھی فطرت کی نقالی کرتا ہے۔ لہٰذا اس نے ایسی شے کو جو حقیقت سے بعید ہو اور تیسرے درجے کی نقالی ہو، رد کر دینے کے قابل سمجھا۔ اس کے اس اعتراض کی نوعیت علمیاتی ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ نقل عقل و فکر کےلئے کوئی قابل فخر کارنامہ نہیں۔ یہ علم کے حصول پر ممد نہیں بلکہ علم کی نقیض ہے۔
اس کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ چونکہ نقل ایک حقیر و رذیل اور ادنیٰ درجے کا فعل ہے لہٰذا اس میں مشغول ہونے والی ذہن انسانی کی صفت جس سے نقل کا فعل سرزد ہوتا ہے بھی ایک حقیرورذیل صفت ہوگی۔ اسی طرح اس نقل سے حظ اٹھانے والے بھی حظ اٹھاتے وقت اپنے ذہن کی کسی گھٹیا صفت کو بروئے کار لاتے ہوں گے۔ لہٰذا تخلیق فن اور تحسین فن دونوں مرد ودومذموم چیزیں ہیں۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔
