عوام سے خوف کیوں؟
کائنات کی رونقیں آدم زاد کی پیدائش سے بحال ہوئیں انسان نے آہستہ آہستہ دنیا میں سماجی قدریں روشناس کرائیں اور وہ بتدریج پتھر کے زمانے سے موجودہ دور میں داخل ہوا قبل مسیح انسان اتنا مہذب نہیں تھا قبیلوں میں بٹا ہوا تھا عوام طاقت کا سرچشمہ نہ تھے بادشاہت و سرداری نظام قائم تھا طاقت ور حکمرانی کرتے تھے اسلامی حکومتیں بھی خلافت سے شروع ہوئیں اور ہمارے پیارے سازشوں سے شہید ہوئے لیکن خلفاؓ کی حکمرانی میں عدل انصاف کا بول بالا رہا موجودہ جمہوری نظام کی داغ بیل تقریباً ہزار سال قبل بڑی اور اس کی ابتدائی شکل برطانیہ میں بادشاہی نظام کے متوازی قائم ہوئی پارلیمینٹ کا موجودہ نظام بھی اس نصف سے زائد دنیا میں برطانیہ کو حکمرانی سے پھیلا اور انگریز نے برصغیر میں گہرے اثرات چھوڑے۔ ہندوستان میں مہاراجوں کا ریاستی نظام قائم تھا لیکن وہاں کے سیاسی پنڈتوں نے جمہوریت کو مضبوط کیا تاکہ دوبارہ مغل و انگریز آسانی سے ہندوستان پر قبضہ نہ کر سکیں پاکستان میں قائد اعظم کے بعد کمزور سیاست دان نہ جمہوری اور نہ ہی بادشاہی نظام قائم کر سکے بلکہ کمزور جمہوریت کے ساتھ فوجی آمریت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فوجی آمریت میں کمزور سیاست دان فوج کے کندھے پر بیٹھ کر اپنی مصنوعی حکمرانی کے مزے لوٹتے ہیں اور ملک کی دولت پیرس، لندن و دیگر ممالک میں منتقل کرتے ہیں اب اس میں چند فوجی حکمران بھی شامل ہو گئے ہیں 75 سال گزرنے کے بعد بھی ملک آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا ہے اور شاید 1947ء سے بھی پیچھے چلا گیا ہے 75 سال پہلے غریب ہونے کے باوجود ہماری سانسیں آزاد تھیں اب ہماری سانسیں بھی مقروض ہیں ہمارے حکمران بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم فلاں ملک سے کم سود پر قرضہ لینے میں کامیاب ہو گئے فلاں ملک سے خیرات لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں خیرات و قرض لینے میں فوجی قیادت اور سیاست دان دونوں شامل ہیں گزشتہ ایک سال سے ملک شدید سیاسی و معاشی بحران میں مبتلا ہے موجودہ پی ڈی ایم میں اکثر جماعتیں اپنے کیس ختم کرانے میں مصروف ہیں اور چھوٹی سی پارلیمینٹ سے اپنے تحفظ کے بل پاس کرانے میں مشغول ہیں آرمی افسر میڈیا پر آکر صف بندی میں مصروف ہیں آئین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ عدلیہ سے صف بندی ہو رہی ہے پی ٹی آئی بھی اسمبلیاں توڑ کر اپنے داؤ پیچ کھیلنے میں مصروف ہے جو کہ خواتین اور نوجوانوں کی مضبوط جماعت ہے عدلیہ بھی سیاسی کھیل میں مصروف ہے چند جج صاحبان کو ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے سیاسی تقریریں کرنے کا شوق ہے لیکن عہدے سے مستعفی ہوکر سیاسی پارٹی بنانے کی ہمت نہیں جمہوری ملکوں میں چند ارکان مستعفی ہو جائیں تو وزیر اعظم پارلیمینٹ توڑ کر فوری عوام کے پاس چلے جاتے ہیں اور انتخابی عمل سے نئی حکومت بناتے ہیں لیکن یہاں سیاست دان اور آمر ہوا کا رخ دیکھ کر الیکشن کراتے ہیں اور موافق ہواؤں کا انتظار کرتے ہیں موجودہ ملکی حالات میں عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے عوام خیراتی آٹا جان گنوا کر بھی لینے کے لئے مارے مارے پھرتے رہے اور سیاست دان آئین، آئین کھیل رہے ہیں کیونکہ حکمران و دیگر ادارے عوام سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں الیکشن کرانے سے ان کے پارلیمینٹرین کی تعداد کم تو نہیں ہو جائے گی اس خوف سے الیکشن نہیں کرا رہے عوام سے خوف زدہ ہونے کے بجائے حکومت اپوزیشن و دیگر اداروں کو کھلے دل سے عوام میں جانا چاہئے عوام اپنی سوجھ بوجھ سے جس کو منتخب کریں وہ تاج اپنے سر پر رکھ کر اس ملک کو معاشی و سیاسی بحران سے نکالنے میں عوام کی مدد کرے اور قائد اعظم کے پاکستان کو قائد کا پاکستان ہی رہنے دیں۔ تعمیراتی کاموں سے ہی نسلیں ترقی کرتی ہیں۔ الیکشن جمہوریت کا حسن ہے ذرہ غور کیجئے؟