خواتین پر تشدد کیخلاف قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے: عاصمہ جہانگیر
لاہور(لیڈی رپورٹر) پاکستان بھر میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں روز بروز اضا فہ بڑھ رہا ہے ۔حکومتی سطح پر اس کے خلاف قانون سازی اچھا اقدام ہے لیکن ابھی اس پر کام کر نے کی مزید ضرورت ہے عورت عرصہ دراز سے قتل ،جنسی طور پر ہراساں ،زنا بلجبر،اجتما عی زیا دتی،ونی سوارہ جیسے ظلم کا شکار ہو تی آرہی ہے ۔ خواتین پر اس سال میں قتل کے1575 ، زنا بلجبر،اجتما عی زیا دتی کے 827 ،خودکشی کے758 ،گھریلوتشدد کے610 ،تیزاب پھینکے کے 44 واقعات ہو ئے ہیں پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے کئی ہزار پرائیویٹ این۔جی۔اوز کام کر رہی ہیں ۔ صوبا ئی دارلحکومت میں 200 سے زاہد تنظیمیں خواتین کے حقوق کی علمبر دار بنتی ہیں پاکستان میں 55فیصد آبادی خواتین کی ہے ۔ خواتین کے حقوق کے لئے گورنمنٹ سطح پر ویمن ڈویلپمنٹ کا قیام خواتین کے لئے خوش آئند ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کر نے کی دعویدار ان سینکڑوںاین۔جی۔اوز کے ہونے کے باوجود خواتین کو ان کا حق نہیں مل رہا ۔ پاکستانی معاشرے کا بڑا المیہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق نہ دینا ہے۔ ”ویمن ڈویلپمنٹ“ کے قیام کے بعد اب پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ادارے کے دائر کار میں ان خواتین کو بھی لایا جائے جو کہ دور دراز کے علاقوں میں رہتی ہیں اور جن کو انصاف اور آزادی رائے کا حق آج بھی حا صل نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار روز نا مہ پا کستان سے گفتگو کر تے ہوئے ایس۔پی۔اور کے ریجنل ڈائریکٹر سلما ن عابد عورت سٹاف فاو¿نڈیشن کی ڈائریکٹر ممتاز بیگم اور ویمن ڈویلپمنٹ کی سیکرٹری ارم بخاری بیگم مہناز رفیع نے کیا۔ام لیلیٰ نے کہا کہ پاکستان میں قومی سطح پر اس وقت 77 فی صد سے لے کر 87فی صد خواتین مختلف سیکٹرز میں کام کر ر ہی ہیں۔ عورت فاو¿نڈیشن کی ممتاز نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ میں خواتین کو حقوق نہ ملنے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ وہ خواتین منفی امتیاز کا شکار ہو جاتی ہیں خواتین کیلئے سب سے بڑا مسئلہ مردوں کے برابر حقوق نہ ملنا ہے۔ پرائیویٹ تنظیموں کو اپنے کام میں مزید بہتری لا نی ہو گی حکومتی سطح پر کو ششوں کے سا تھ ساتھ پرائیویٹ این جی اوز کو بھی نیا لا ئحہ عمل بنا نا چا ہیے۔