راوی کو زندہ رہنے دو!
جب سے ایک فوجی ا ٓمر ایوب خان نے ہمارے راوی کا پانی انڈیا کو بیچا ہے اس کے بعد تو اس میں کبھی کبھی ہی روانی آتی ہے ، دریا چلنے کی بجائے لیٹا ہی رہتا ہے، اب بارشیں ہونے پر بڑے عرصے کے بعدراوی میں پانی اور وہاں سیر کرنے والوںکے چہروں پر رونق آئی ہے ورنہ عملی طور پرتویہ دریا ایسے نالے کا روپ اختیا ر کر چکا ہے جس میں شہر بھر کا سیوریج ڈال دیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ روز پہلے ہی بچوں کو اپنے شہر کا دریا اور کامران کی بارہ دری دکھانے کے لئے وہاںگیا تووہاں تھوڑے سے پانی میں بڑی بڑی بھینسیں مری ہوئی تھیں، کامران کی بارہ دری کا حال بھی کسی کچرا گھر سے کم نہیں تھا اور بارہ دری کے پیچھے مسجد اور مزار بھی کسی گاو¿ں کا منظر پیش کررہے تھے، دریا کنارے نوجوان کھیل میں مصروف تھے مگر کھیل کی کوئی سہولت میسر نہ تھی، نجانے دریائے راوی اور کامران کی بارہ دری کو بطور سیرگاہ کیوں نظرانداز کیا گیا ہے، وہاں سے غالباً رانا محمد اقبال رکن پنجاب اسمبلی ہیں، انہوں نے کبھی حکومت کو ایسا پلان پیش کیوں نہیں کیا کہ دریا کے پیٹ میں موجود اس سیر گاہ کی خوبصورتی کو بحال کرتے ہوئے وہاں روشنیوں کا انتظام کیا جائے، وہ جگہ تو ایسی ہے جہاں چاند راتوں میں مشاعرے ہو سکتے ہیں۔
راوی بیمار کیوں ہے، یہ لیٹا کیوں رہتا ہے تواس کا پہلا جواب تو کالم کے آغاز میں ہی موجود ہے، ہمارا ازلی دشمن بھارت سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے راوی کے پانی کا حق دار بن چکا ہے،میں نے سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کے فوت ہونے کے مقام کرتار پورضلع نارووال کے قریب سے دریائے راوی کوخراماں خراماں اپنے وطن میں داخل ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے، وہاں ہی اس میں پانی بہت کم مگر لاہور میں بہنے والے دریا کے مقابلے میں کافی صاف ہوتاہے، یہی وہ دریا ہے جس پر گیت اور ٹپے لکھے اور گائے گئے ، وگدی اے راوی وچ سُٹاں پتیاں، مینوں اج پتا لگا اے ماہی نال منگی آں ( راوی بہہ رہی ہے میں اس میں پتیاں پھینک رہی ہوں کہ مجھے آج ہی پتا چلا ہے کہ میری منگنی میرے محبوب سے ہو چکی ہے ) مگر اب راوی اپنی سانسوں کے لئے کسی انتہائی نگہداشت کی وارڈ کا محتاج ہے ، اس کی شریانوں میں پانی کی بجائے لاہو ر کی تقریباً سات سو فیکٹریاں اپنا فضلہ اور شہری اپنا سیوریج پھینک رہے ہیں، فیکٹریوں سے آنے والاکیمیکل زدہ زہریلا پانی ہماری فضا ہی نہیں، زرخیز زمینوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی شہر اپنے محسن دریا کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتا جو ہم لاہوری کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کے حکم پر ایک نو رکنی کمیشن قائم کیا گیا ہے جو فیکٹریوں کو یہ زہریلے مادے راوی میں پھینکنے سے روکے گا۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کے بعد ہی میری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ کے معاون برائے تجارت محمد علی میاں اور مسلم لیگ نون لاہو رکے صدر پرویز ملک ایم این اے کی زیر صدارت لاہور چیمبر کے نمائندوں کے ساتھ ایک یا دو اجلاس بھی منعقد ہو چکے ہیں، جہاں حکومت اور صنعتکاروں،دونوں کا رویہ ہی ” دوٹوک“ رہا۔ لاہور کے صنعتکار مانتے ہیں کہ وہ اپنی فیکٹریوں سے زہر اور موت باہر بھیج رہے ہیں مگر وہ اسے ناممکن قرار دیتے ہیں کہ ایک دوکروڑمالیت کی فیکٹری لگانے والا چار ، پانچ کروڑ روپے کا اپنا الگ فلٹریشن پلانٹ لگا ئے اور اپنی فیکٹری کا پانی زہریلے مادوں سے پاک کرکے باہر نکالے، حل یہی ہے کہ کسی بھی انڈسٹریل ایریا میں مشترکہ طور پر فلٹریشن پلانٹ لگایا جائے مگر اس کے دو قسم کے اخراجات ہیں، پہلا بڑا خرچ اس کی تنصیب کا ہے اور لاہور چیمبر کے ذمہ داروں کے مطابق یہ خرچ حکومت کو ہی برداشت کرنا پڑے گاکیونکہ اس وقت لوڈ شیڈنگ اور دیگر نامساعد کاروباری حالات کی وجہ سے صنعتکار اس پوزیشن میںنہیںکہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کر سکیں جس کاانہیں کچھ فائدہ بھی نہیں ہو گا تاہم ایوان صنعت اور تجارت کی طرف سے سہیل لاشاری نے یہ پیش کش ضرور کی کہ پلانٹ کے لگنے کے بعد اس کے آپریشنل اخراجات بھی ماہانہ کروڑوںمیں ہوں گے اور صنعت کار آپس میں مل کر یہ اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ فی الحال تو خبر یہی ہے کہ تاجروں نے راوی کو زندگی دینے والا فلٹریشن پلانٹ لگانے سے صاف انکار کر دیا ہے اور حکومت نے اس سے بھی زیادہ دوٹوک اندازمیں جواب دے دیا کہ ان کے پاس اس کام کے لئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔ اب یہ کمیشن اگر اپنا اجلاس منعقد کر کے سفارشات تیار بھی کر لیتا ہے تو صنعتکاروں اور حکومت کے اس روئیے کے بعد راوی کی رگوں سے زہر نکالنے کا خواب ادھوراہی رہ جائے گا۔ سیر و سیاحت کے لئے راوی کا صاف پانی تو عیاشی سمجھا جاسکتا ہے مگر میرے صنعتکار دوست میری بات سے بھی انکار نہیں کرتے کہ جن علاقوں میں فیکٹریاں اپنا ویسٹ ستوکتلہ سمیت مختلف بڑی ڈرینوں اور پھر وہاں سے راوی میں منتقل کر رہی ہیں، ان علاقوں میں کینسر کے مریضوں کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ قصور سے آگے متعدد گاو¿ںمیں نے خود وزٹ کر کے دیکھے ہیں جہاںاسی پانی کی وجہ سے گلہڑ کی بیماری عروج پر ہے، میںبچیوں کے سکولوں میں گیا جہاں استانیاں اورمائیں روپڑیں کہ ان کے پھولے ہوئے گلوں والی بیٹیوں کے رشتے کہاں سے آئیں گے، کون ان کو اپنی دلہن بنانے کو تیار ہو گا۔ راوی کا وہ پانی جسے صحت اور زندگی دینی چاہےے وہ بیماری اورموت دے رہا ہے مگر اس میں راوی کا کیا قصور، وہ بے چارا تو اپنی قسمت کو روتا ہوگا کہ کچھ دریا گنگا جمنا کی طرح مقدس اور کچھ اس کی طرح محض گندگی بھری ڈرین بن جاتے ہیں۔ وہ بھی یہی شعر پڑھتا ہو گا کہ ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز شب عروساں، کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لئے ۔بہرحال حکمرانوں سے صنعتکاروں اور صنعتکاروں سے عوام تک جو غلطیاں ہونا تھیں ہو چکیں ، اب ماہرین اس کا حل بیان کرتے ہیں کہ پانی کو صاف کرکے راوی میں پھینکنے کے لئے بہت مہنگے برانڈڈ فلٹریشن پلانٹس امپورٹ کرنے کی بجائے مقامی ماہرین سے سستے پلانٹس تیار کروا لئے جائیں، جس سے تیاری اور تنصیب کا بجٹ ایک چوتھائی رہ جانے کی امید کی جا رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ تجویز بھی سنی تھی کہ راوی میںنارنگ منڈی سے باٹا پور تک لاہور کے ساتھ ساتھ ایک بڑی جھیل بھی بنائی جا رہی ہے مگر علم نہیں کہ وہ منصوبہ کیا ہوا، اگر اس منصوبے پر عمل ہوجائے تو لاہور کی خوبصورتی میںبھی اضافہ ہو گا، یہاں کی فضا کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔آب و ہوا بہتر ہونے سے یاد آیا کہ لاہور کے ڈی سی اونور الامین مینگل نے شہر میں دس ہزار نئے اور ہمارے روایتی آم، جامن اور شہتوت وغیرہ کے درخت لگانے کا حکم دیا ہے، میں شہر میں پی ایچ اے کی خدمات سے کسی طور انکار نہیں کرتا مگر عملی طور پر یہی ہوا ہے کہ سڑکوں کی خوبصورتی کو بڑھانے کے لئے پام اور کھجور جیسے امپورٹڈ درخت لگائے گئے، ان درختوں کا وہ گھنا پن بھی نہیں ہوتا جن پر کبھی برسات میں پینگیں چڑھائی جاتی تھیں اور پرندے اپنے گھونسلے بناتے تھے۔ میں نے دیکھا اور پہلے ایک مرتبہ بیان بھی کیا تھا کہ میرے شہر سے چڑیاں، طوطے، فاختائیں اور تتلیاں رخصت ہو رہی ہیں، ان کی جگہ کوے اور چیلیں لے رہی ہیں، گھونسلوں والے درختوں کے غائب ہونے سے نہر پر چیل گوشت بیچنے والے بھی شہر پر اس ظلم میں حصے داربن رہے ہیں۔ اب اگر یہ درخت لگتے ہیں لازمی طورپر شہر کا حسن بڑھے گا۔ یہ دریا، یہ درخت اور یہ پرندے شہروں کا حسن بڑھاتے ہیں،یہ ہم سے روٹھ رہے ہیں، ہمیں ان کو منانا ہے، جو جا رہے ہیں ان کو روکنا اور واپس لانا ہے۔ راوی میں پانی آیا ہے تو کوئی تو راستہ ہو گاکہ یہ پانی یہاں بہتا رہے، ہم یہاں کشتی رانی کرتے رہیں، دنیا بھرمیں ریور سائیڈ ہوٹل اور ریستوران بہت بزنس کرتے ہیں تو دریائے لاہور کے ساتھ کیوںمحفلیں آباد نہیں ہو سکتیں۔نارنگ منڈی سے باٹا پور تک اگر اس میں پانی رہے اور چاہے کسی مصنوعی طریقے سے ہی رہے توجس طرح دریائے جہلم اور دریائے چناب کے ساتھ خوبصورت سیرگاہیں بن چکی ہیں ، وہ لاہور میںبھی بن سکتی ہیں ۔۔۔ بس التجا یہی ہے کہ راوی کو زندہ رہنے دو ، راو ی میں پانی بہنے دو !