پانی کا تنازعہ: پاک بھارت مذاکرات

پانی کا تنازعہ: پاک بھارت مذاکرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دریائی پانی کے تنازعہ پر پاک بھارت مذاکرات آج ختم ہو جائیں گے۔ یہ سہ روزہ مذاکرات اتوار کو لاہور میں شروع ہوئے۔ جو بے نتیجہ رہے کہ پاکستان کی طرف سے مسترد کر دیا گیا۔ پاکستان نے اتوار کو کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراض کیا اور اسے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا پاکستان کی طرف سے دریا ئے چناب کا رخ موڑنے پر اعتراض کیا گیا اور رتلی کے مقام پر 690 میگا واٹ کے ڈیم کی تعمیر، ایک ہزار میگا واٹ کے پکل ڈیم، ایک ہزار ایک سو نوے میگا واٹ کے کرتھائی ڈیم اور 600 میگا واٹ کے کیرو ڈیم کی تعمیر کو غلط اور معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کو اس کے حصے کے پانی میں کمی واقع ہو جائے گی۔ پاکستان نے یہ تنازعہ عالمی ثالثی عدالت میں لے جانے کی بات بھی کی ہے۔بتایا یہی گیا ہے کہ بھارت کی طرف سے وفد نے اعتراضات ماننے سے انکار کر دیا اور دعویٰ کیا کہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی جا رہی۔ بھارت کے ساتھ چناب اور جہلم دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرنے ،پاکستان کا پانی روکنے اور طے شدہ حصہ کم کرنے پر تنازعہ دیرینہ ہے۔ کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے تو سندھ طاس معاہدہ کے تحت ثالثی عدالت سے بھی رجوع کیا گیا تھا۔ تاہم بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو یہاں یہ شکایت موجود ہے کہ ہمارے طاس سندھ معاہدے کے کمشنریٹ نے اپنا مقدمہ بروقت اور ٹھیک سے پیش نہیں کیا اور اس کا نقصان بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے حکومتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔
جہاں تک سندھ طاس معاہدہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایوب دور میں کئے جانے والے اس معاہدے کی شقوں پر غور نہ کیا گیا اس کے بعد بھارت کی طرف سے کی جانے والی خلاف ورزیوں پر بروقت کارروائی بھی نہیں کی جاتی رہی جس کا نقصان ہوا، بھارت ڈیم بناتا رہا ہم خاموش رہے اور جب سوال اٹھایا تو تاخیر ہو چکی تھی اب بھی اچھے اور بھرپور طریقے سے اپنے موقف کو پیش کرنے سے کچھ ریلیف مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو ڈیم بنانے سے کس نے روکا ہے؟ بہتر عمل یہ تھا کہ ہمارے زعماء بھی بہت پہلے یہ حق استعمال کر لیتے تو یہ تنازعہ نہ ہوتا اور نہ ہی بجلی کی اتنی شدید قلت ہوتی۔ توقع کرنا چاہئے کہ پاکستان اپنا موقف ٹھوس بنیادوں پر پیش کرے گا اور ضرورت پڑی تو عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا جائے۔

مزید :

اداریہ -