جبرو قدر

جبرو قدر
 جبرو قدر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خواجہ سعد رفیق کے بعد اب ایاز صادق! کاش کوئی رفیقِ صادق اس نظام کوبھی مل جائے۔ خلق خدا جس سے اوبھ گئی۔ عدالتی کمیشن کا فیصلہ مسلم لیگ نو ن کے حق میں گیا تھا۔ ایک کے بعد ایک معرکہ وہ اپنے نام کررہی تھی ۔ اور سیاست میں اس کی سب سے بڑی حریف جماعت کے تالاب سوکھ گئے تھے۔ وہ ایک کے بعد ایک ناکامی کا سامنا کررہی تھی، مگر حلقہ 122 کا فیصلہ مسلم لیگ نون سے پھر بھی ہضم نہیں ہورہا۔ وہ ایک ذرا سی دیر میں مسلم لیگ نون سے تحریکِ انصاف بن گئی اور مذمتی مہم برپا کرنا شروع کردی۔یہ دراصل ایک دوسرے کے مقابل ایک جیسے لوگ ہیں، جن سے ہم اُمیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔مسلم لیگ نون کے ا س مہم جویانہ ردِعمل پر اگر تحریکِ انصاف کی طرف مائل دانشور یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ یہ دراصل ایک پیغام ہے جو مخالفین پر ڈھ پڑنے کا اشارا دیتا ہے۔ تاکہ اگلے آنے والے فیصلوں پر اثرانداز ہوا جاسکے ۔ تو یہ کچھ ایسا غلط نتیجہ نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ نون کی تاریخِ سیاست ایسے تاریک گوشوں اور حصوں کی شہادت دیتی ہے۔ شخصی وفاداری کی دوڑ میں بندھے جمہوریت کے جعلی محافط مسلم لیگی رہنما ،فیصلے پر خفا ہیں اور کاظم ملک کی مذمت پر آمادہ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ طرزِعمل درست ہے تو پھر عمران خان کی طرف سے چیف جسٹس سمیت نادرا اورالیکشن کمیشن کی مذمت کیوں کر غلط ہے؟یہ ایک ہی نوع کا طرزِعمل ہے جو ہمارے حق میں نہ ہو اُس کو کچل دو۔دونوں جماعتوں کے یکساں رویئے پرایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کیوں کر کی جاسکتی ہے؟


انتخابی ٹریبونل کا فیصلہ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ہوتا تب بھی یہ ایک غیر تسلی بخش اور بے فیض فیصلہ ہے، جو جمہوریت یا شفاف انتخاب کے بنیادی مقصد کی کوئی خدمت نہیں کرتا۔ دراصل انتخابی عذرداریوں کا فیصلہ کرتے ہوئے انتخابی ٹریبونلز کے موجودہ طریقہ کار میں ایک جوہری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انتخابی ٹریبونل کے لاہور کے حلقہ 122پر فیصلے نے اس نظامِ فاسد کا بدترین چہرہ عریاں کردیا ہے۔آخر کیوں ایک جعلی نمائندگی کا باب اتنا طویل ہوتا ہے اور انتخابی ٹریبونل قانوناً چار ماہ میں فیصلے کا پابند ہونے کے باوجود سالوں تک اس نوع کے مقدمات فیصل نہیں کرپاتا؟تاخیری حربے کامیاب رہتے ہیں اور قانون کی روح جمہوریت کے جسم سے کہیں پرواز کر جاتی ہے اس دوران ذرائع ابلاغ قومی سطح پر اپنی من چاہی فضا بنا لیتے ہیں اور انصاف کے تقاضے گردوپیش سے اثرات قبول کرتے ہوئے ایک لاحاصل مشق اور بے مقصد کھیل میں کہیں مر کھپ جاتے ہیں۔جی نہیں اس بدبودار مشق کو اسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے نتیجے میں کوئی شخص کھڑا ہو کر جمہوریت کے مستعار زمین وآسمان پھونکنے کا تماشا برپا کر دیتا ہے تو اس کے پاس راستے ہی کون سے رہ جاتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کرے۔آخر وقت ہی تو سب کچھ ہے۔ انتخابی عذرداریوں کو فیصل کرنے کا طریقہ دہشت گردی کی عدالتوں کی طرح تیزرفتار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل تمام تاخیری حربوں سے شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔


فرض کر یں کہ کاظم ملک ٹریبونل یہ فیصلہ بروقت کرلیتا تو دھرنے کے بعد قائم ہونے والے عدالتی کمیشن کا فیصلہ ایک مختلف فضا میں سُناجاتا۔دراصل سیاست میں اصل حکمرانی تصورات کی ہوتی ہے۔ عمران خان ایک طویل عرصے سے اصرار کررہے ہیں کہ صرف چار حلقے کھول دیئے جائے تو سب کو ان چاولوں سے پتا چل جائے گا کہ انتخابی دیگ دھاندلی زدہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی یہ پوری بات غلط ہو مگر مسلم لیگ (ن) نے اس عمل کو طول دے کر خود کو اپنے ہی ہاتھوں سے مشکوک بنایا ہے۔عمران خان کے بیان کردہ چار حلقوں میں سے دو حلقوں کے فیصلے پی ٹی آئی اپنے حق میں لے چکی ہے۔ اس نے پی ٹی آئی کی اخلاقی حیثیت کو توانائی دی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی نفسیاتی برتری کو ضعف پہنچایا ہے۔


وقت اور ماحول ہی سیاست میں اصل قدروقیمت رکھتے ہیں۔ اگر انتخابی ٹریبونل کے یہ فیصلے اپنے وقت پر آ جاتے تو تحریک انصاف ایک مختلف فضا میں پھل پھول رہی ہوتی،مگر اب بنیادی سیاسی محرکات پر نوازشریف کی گرفت مضبوط ہو چکی ہیں،اور تحریکِ انصاف عام انتخابات کی اس فضا سے عوامی تصورات سے نکل چکی ہے، جس میں اِسے ایک فاتح گھوڑا سمجھا جاسکے۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ جن حلقوں میں دھاندلی کو تسلیم کیا گیا ، وہاں ضمنی انتخابات ہو تو تحریک انصاف مطلوبہ حیثیت نہ پا سکے۔ ایسی صور ت میں اس کی ایک مختلف تعبیر کی جائیگی۔ اور یہی تو مسلم لیگ (ن) کی اصل صلاحیت ہے۔ اور اسی کا شریف برادران کو تجربہ ہے۔ چنانچہ انتخابی ٹریبونل کا فیصلہ جو بھی آیا ہو، یہ اپنے اصل ثمرات کو کبھی ظاہر نہیں کر سکے گا۔ یہی چیز بالفاظِ دیگر ’’اسٹیٹس کو‘‘ (حالتِ قائمہ) کی نفرت انگیز تعبیر پاتی ہے۔دورِجدید کی جمہوریت نے اب اس کی گنجائش بہت کم کردی ہے کہ وہ کسی جوہری تبدیلی کو برپا کردینے کے ماحول کو اپنے اندر سے خوش آمدید کہہ سکے۔ سرمایہ پرستی کے ماحول میں اب یہ امر تقریباً ناممکن سا ہوگیا ہے۔


مسلم لیگ (ن) کا حالیہ ردِ عمل جمہوریت کے لئے موجودہ گنجائش کو محدود کرسکتا ہے ۔ وہ ایک مختلف فیصلے پر ٹریبونل کے خلاف لب کشائی کرنے میں بھی بالکل نہیں ہچکچا رہی۔ ابھی کچھ عرصہ پیشتر عمران خان کے لب ولہجے پر حکومت شکایتوں کادفتر کھول کر بیٹھ جاتی تھی۔ عدالتی کمیشن کے فیصلے پر قوم سے خطاب میں میاں نوازشریف نے دھرنے کے دنوں کے لب ولہجے کو یاد کیا تھا۔ فرق کیا ہے؟ بس ہر جماعت کے رہنماؤں کی زبان اپنے خلاف بہنے والے واقعات میں ایک جیسی ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) حکومت میں ہے اور کابینہ اراکین مملکت کے مختلف اداروں کے محافظ وامین ہیں اگر وہ ریاستی اداروں کے ذمہ داران کے خلاف اس طرح لب کشائی کریں گے تو باقی کیا بچ جائے؟کچھ ایسا ہی تجربہ پچھلے دنوں شہباز شریف کے حوالے سے ہوا جب اُنہوں نے واقعہ قصور کے حوالے سے متاثرین سے ملتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کئے کہ تحقیقات میں اگر کسی نے ڈنڈی ماری تو اُسے اُلٹا لٹکا دوں گا۔ یہ کون سی زبان ہے؟ اس سے پہلے وہ آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے بچگانہ دعوے نہایت جذباتی لہجے میں کرتے رہے ہیں ۔اور پھر خاموشی سے معذرتیں بھی طلب کرتے رہے ہیں۔یہ لوگ خاموشی کی فضیلتوں سے آگاہ کیوں نہیں ہوپاتے۔


مسلم لیگ(ن) مسلسل سیاسی طور پر اپنی مرضی کا میدان ہموار کرتی آرہی ہے۔ اُن کے رہنمائرں کے پاس اقتدار کا طویل تجربہ ہے۔ اُنہیں قومی اداروں کے ساتھ ’’معاملات‘‘ کرنے کا ہنر آتا ہے۔ اب تک وہ جو فیصلے اپنے حق میں یافت کرچکے اُن سب کے متعلق ایک دوسری رائے بھی متوازی طور پر اُبھرتی رہی ہے۔الغرض مسلم لیگ(ن) اپنے حق میںیکطرفہ بازی کر لینے کے باوجود یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ انتخابی ٹریبونل کا فیصلہ اُس کے خلاف کیونکر آئے؟ ذرا ان عالی دماغوں کا ردِعمل تو دیکھئے ایک ادارے کی غلطی کی سز اکسی دوسرے کو کیوں ملے؟اُسی ادارے کی غلطی کی جزا پر ایک دوسرا شخص کوس لمن الملک بجاتا رہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی بن جائے۔ خود حلف اُٹھانے کے قابل نہ ہو مگر دوسروں سے حلف لیتا پھرے۔ خود اسمبلی میں بیٹھنے کا مستحق نہ ہو، مگر دوسروں کے استعفے قبول یا رد کرنے کا فیصلہ کرتا پھرے، جس اسمبلی میں وہ ایک لفظ بولنے کا اہل نہ ہو وہ وہاں کون بولے یا نہ بولے اس کا فیصلہ کرنے کا مجاز بنتا پھرے۔وہ جس ادارے کی غلطی کی جزا بھگتے اس کی سزا نہ بھگتے۔ ایسی عالی شان دلیل ایسے ہی دماغوں میں پھوٹ سکتی ہے جو اقتدار کو اپنا حقِ فائق سمجھ بیٹھے ہوں، اور جن کے لئے مُلک اُن کے اقتدار کے بعدشروع ہوتا ہو۔


قومی سیاست کا یہ بدترین چہرہ اس لئے ہے کیونکہ یہاں سیاسی اور سرکاری سرگرمیوں کی کوئی اعلیٰ اخلاقی بنیاد نہیں ہے۔ اور قانون وآئین کے تقاضوں کی کسی بھی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ۔یہاں قانون کی دُہائی اس لئے نہیں دی جاتی، کیونکہ یہ اصلاً کوئی قانونی تقاضے سے عبار ت معاملہ ہوتا ہے۔ نہیں ، بلکہ قانون کی فریاد تب بلند کی جاتی ہے جب یہ سیاسی اشرافیہ کے لئے مفید ہوتا ہے۔ بدقسمت قومی سیاست میں جمہوریت چند خاندانوں کی اقتدار پر گرفت کا بدترین آلہ بن چکی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی طالع آزما کے حب الوطنی کی آڑ میں اقتدار پر مہم جوئیانہ شب خون سے بچنے کے خوف میں ہمیں اِس مکروہ ترین جمہوریت کے بدبودار چہرے کا تحفظ کرنا پڑتا ہے۔پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ جبروقدر بس یہی ہے۔

مزید :

کالم -