گڈگورننس: منزل ابھی دور ہے
مَیں جب ایک سرکاری کالج کا پرنسپل بنا تو ازخود یہ فیصلہ کیا کہ کالج اگر آٹھ بجے لگتا ہے تو مَیں پونے آٹھ بجے ہر صورت کالج میں موجود ہوں گا۔ اپنا یہ معمول میں نے ایک دن بھی ختم نہیں کیا، اس کا بڑا مثبت اثر ہوا، تمام پروفیسر صاحبان اور دفتری عملہ ٹھیک آٹھ بجے کالج میں موجود ہوتا تھا۔
پہلا پیریڈ جو عموماً اساتذہ اور طلبہ کی تاخیر سے آمد کے باعث پوری طرح نہیں لگ پاتا تھا، لگنے لگا۔ غیر حاضری کا تصور ہی ختم ہوگیا، جس کا آخر میں نتیجہ یہ نکلا کہ کالج کی پچاس سالہ تاریخ میں سب سے بہتر نتائج سامنے آئے۔
اپنے اس تجربے کی بنیاد پر مَیں کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان نے وقت پر اپنا دفتر کھولنے کا جو آغاز کیا ہے اور تمام وزراء کو وقت کی پابندی کرنے کا جو حکم دیا ہے،اُس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا ہے کہ وہ 16گھنٹے اور وزراء 14گھنٹے کام کریں گے۔ جب محکمے کا وزیر مستعد ہوگا تو لازماً اُس کے سیکرٹری اور نچلے عملے کو بھی کام کرنا پڑے گا، یوں اثرات نیچے تک آتے ہیں، ضلعوں تک پھیلے ہوئے محکموں کے دفاتر بھی وقت پر کھلیں گے اور عوام کے کام ہوسکیں گے، یہ چیز صوبوں میں بھی آنی چاہئے۔
مجھے پنجاب سول سیکرٹریٹ میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا ہے، مجال ہے کوئی سیکرٹری 12بجے سے پہلے دفتر آئے، چیف سیکرٹری کی تو بات ہی کیا ہے، لیکن اب یہ روایت ٹوٹ جائے گی، کیونکہ جب ملک کا وزیر اعظم وقت کی پابندی کرنے لگے تو یہ ممکن نہیں کہ نیچے غفلت کی گنگا بہتی رہے۔
نواز شریف کی سب سے بڑی غفلت یہی تھی کہ انہوں نے وزیر اعظم کے دفتر کو کبھی دفتر نہیں سمجھا۔ وہ اکثر باہر کے دوروں پر رہے اور کئی کئی ہفتوں کی چھٹیوں پر بھی چلے گئے۔جب وزیراعظم اپنے دفتر کو وقت نہیں دے گا تو وزراء اور سیکرٹریز کیوں دیں گے۔
سوایک ڈھیلی ڈھالی حکومت چلتی رہی، جس کا ملک کو بھی نقصان ہوا اور خود مسلم لیگ (ن) کو بھی، جس کا نتیجہ 2018ء کے انتخابات میں شکست کی صورت سامنے آیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس منصب کو ایک پابندی سمجھ کے قبول کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تیزی سے کام اور فیصلے کررہے ہیں۔
اُن کی گورننس اس لئے بھی بہتر ہونے کی اُمید ہے کہ وہ کابینہ کا اجلاس ہر ہفتے بلا رہے ہیں، پہلے کابینہ سے منظوری لینے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ سب فیصلے تنہا وزیر اعظم کرتے تھے، جس پر سپریم کورٹ میں رٹ دائر ہوئی اور عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ دیا کہ وفاقی حکومت سے مراد اکیلا وزیر اعظم نہیں، بلکہ پوری کابینہ ہے، اس لئے وزیر اعظم کو اپنے ہر فیصلے کی منظوری کابینہ سے لینی چاہئے، وگرنہ وہ فیصلہ غیر آئینی تصور ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے یہ بات پہلے دن ہی اپنالی ہے، پھر یہ بھی نہیں کہ وہ اپنے فیصلے کابینہ پر ٹھونس رہے ہیں، بلکہ کابینہ کے ممبران کی مشترکہ رائے سے فیصلے کئے جارہے ہیں، مثلاً ہفتہ کی چھٹی کا خاتمہ وزیر اعظم عمران خان کی تجویز تھی، تاکہ زیادہ سے زیادہ کام ہوسکے، لیکن کابینہ نے مختلف وجوہات کی بنا پر اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا، جس پر اس تجویز کو مسترد کردیا گیا۔ ایسی تبدیلیاں خوش آئند ہیں اور ملک کو ایک بہتر نظام حکومت دے سکتی ہیں۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزراء کو سودن میں کارکردگی دکھانے کا ٹاسک دیا ہے۔ کارکردگی سے مطمئن نہ کرنے والوں کو شاید اپنی وزارتوں سے محروم ہونا پڑے۔
اسی طرح شنید یہ بھی ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو بھی سودن میں اپنی حکومتوں کے واضح خدوخال لانے کی ڈیڈلائن دی گئی ہے۔ ظاہر ہے خدوخال کا ماڈل یہ ہے، جو وزیر اعظم عمران خان مرکز میں سیٹ کررہے ہیں۔
سادگی اور بچت پر تو عملدرآمد شروع ہوچکا ہے، تاہم اصل کام یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے۔ بیوروکریسی ایک بگڑا ہوا اڑیل گھوڑا ہے، اُسے حکمرانی کی عادت پڑی ہوئی ہے، اُس کے نزدیک وزراء بھی گھڑے کی مچھلی ہیں اور ارکان اسمبلی کو بھی وہ اپنے در کا سوالی سمجھتی ہے۔ چیف سیکرٹری سے عام آدمی تو کجا کوئی رکن اسمبلی بھی کئی دن وقت مانگنے کے بعد مل سکتا ہے۔
ضلع کا ڈپٹی کمشنر سارے فیصلے کرتا ہے اور ضلع میں وائسرائے کے طور پر وقت گزارتا ہے۔ ہرنیا تعینات ہونے والا ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او پہلی بڑھک تو یہی مارتا ہے کہ اُس کے دروازے عام آدمی کے لئے کھلے ہیں، اُس کی اس بڑھک ہی سے اُس ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے، جو وہ مغلیہ بادشاہ جیسی رکھتا ہے، وگرنہ اُسے یہ کہنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے کہ دروازے عوام کے لئے کھلے ہیں۔
جب تک اس بیوروکریسی کی ذہنیت تبدیل نہیں کی جاتی اور ان کی سروس کو ’’سنٹرل سپیرئیر سروس‘‘ کہنے کی بجائے سنٹرل پبلک سروس قرار نہیں دیا جاتا، اُس وقت تک ان کے ذہن سے یہ خبط نہیں نکلے گا کہ ہم سپیرئیر ہیں اور عوام انفیرئیر یعنی کمتر ہیں۔ یہاں مختلف شعبوں کے افراد نے اپنے اپنے محاذ بنالئے ہیں، وہ اپنے آدمی کی ہر قیمت پر حمایت کرتے ہیں۔
سی ایس پی افسران اپنے کسی جونیئر افسر کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کرتے، بلکہ اُسے صاف بچا لیتے ہیں، اسی طرح پولیس میں ایک پی ایس پی گروپ ہے، جو سی ایس ایس کرنے کے بعد پولیس میں آتا ہے، یہ لوگ رینکر پولیس والوں کے خلاف تو کارروائی کرتے ہیں، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی پی ایس پی پولیس افسر کے خلاف سنگین کرپشن یا بے ضابطگی پر بھی کوئی کارروائی کی گئی ہو۔ ایک اچھی حکمرانی قائم کرنی ہے تو پھر اس قسم کے گٹھ جوڑ اور ’’پیٹی بھائی بچاؤ‘‘ کلچر کو بھی ختم کرنا ہوگا۔
مجھے یقین ہے کہ پہلے سو دنوں میں حکومت اپنے خدوخال کو اس حد تک نمایاں کرنے میں کامیاب رہے گی کہ اگلے پانچ سال کا سارا نقشہ واضح ہوجائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی ضلع میں ایک سخت اور ایماندار ڈی پی او تعینات ہو جائے تو نکمے اور کرپٹ پولیس اہلکار وہاں سے تبادلہ کرانے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔
مجھے اندازہ ہے کہ عمران خان کی کابینہ کا حصہ بننے والے وزراء میں کئی ایسے بھی ہیں، جو اس قسم کی وزارت کے قائل نہیں۔ وہ تو کھل کھیلنا چاہتے ہیں، لیکن یہاں اُن پر سادگی اور بچت کی لاٹھی برسادی گئی ہے۔ گاڑیوں کی پابندی، اخراجات میں کمی اور پھر کارکردگی دکھانے کی شرط۔۔۔ یہ وزارت تو نہ ہوئی، بلکہ نوکری ہوگئی، جس میں حکمرانی سے زیادہ پابندیوں کا ذائقہ شامل ہے۔
اب یہ سب اعتراض بھی نہیں کرسکتے، خود وزیر اعظم اُن کے سامنے مثال بنا بیٹھا ہے۔ جب وہ پانچ گاڑیوں کے قافلے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو وزیر بڑے قافلے کے ساتھ کیسے جاسکتا ہے؟ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر وزیر سادگی اور کفایت شعاری میں دوسروں پر بازی لے جانے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔
شاید وہ اس طرح وزیر اعظم عمران خان کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ کپتان صرف ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہونے والا، بلکہ یہ تفصیل بھی مانگے گا کہ انہوں نے اپنی وزارت میں نچلی سطح تک تبدیلی لانے کی جو کوششیں کیں، ان کا کیا بنا؟ صاف لگ رہا ہے کہ عمران خان آج بھی کرکٹ کے کپتان کی طرح مستعد ہیں، اُن کے وزرائے اعلیٰ پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ عوام پر اثرانداز ہونے والے زیادہ تر محکموں کا تعلق صوبوں سے ہے، پنجاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ یہ صوبہ شخصی حکمرانی کی زد میں رہا ہے۔
اس کے ادارے تباہ ہوچکے ہیں اور بیوروکریسی بہت زیادہ بگڑ چکی ہے۔ سب سے زیادہ عوامی حقوق کی پامالی پنجاب میں ہوتی ہے، ان دونوں صوبوں یعنی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ اگر سیکرٹریٹ سے تحصیل کی سطح تک وزیراعظم عمران خان کے وژن کی رہنمائی میں تبدیلی لے آتے ہیں، تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
تعلیم، صحت، پولیس، زراعت، لیبر اور بلدیات کے محکمے بدترین حالات کا شکار ہیں۔ ان میں اصلاح کئے بغیر کوئی تبدیلی نہیںآسکتی۔ سب سے پہلے تو ان محکموں میں اوپر سے نچلی سطح تک ملازمین کی حاضری کو وقت مقررہ تک یقینی بنایا جانا ضروری ہے، بڑے ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹرز آتے ہی نہیں، صرف پرائیویٹ مریض چیک کرتے ہیں، اُن کا کڑا احتساب وقت کی ضرورت ہے، اسی طرح تعلیم کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، پرائمری شعبے سے لے کر یونیورسٹیوں تک آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، اصلاح کے لئے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے، پولیس کو تو ہونا ہی پہلا ہدف چاہئے، اسی طرح زراعت، لیبر اور بلدیات کے محکمے بھی سوائے بوجھ بننے کے اور کچھ نہیں کررہے، اُمید کی جانی چاہئے کہ جلد ہی وزیر اعظم صوبوں کے معاملات پر بھی توجہ دیں گے اور جو مشن لے کر وہ حکومت میں آئے ہیں، اُس کے اثرات عام آدمی تک ضرور پہنچیں گے۔