فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر502

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر502
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر502

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’سلطانہ‘‘کی نمائش ہوئی تو یہ ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی جس نے گل حمید کو بر صغیر میں سب سے مقبول اور ہر دل عزیز ہیرو بنا دیا۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی خطے سے تعلق رکھنے والے اداکار دلیپ کمار)یوسف خاں(نے اپنے عہد میں جو بے پناہ مقبولیت حاصل کی تھی گل حمید بھی’’سلطانہ‘‘کی ریلیز کے بعد اسی طرح مقبول اور محبوب ہو گئے تھے۔ان کی شہرت خیبر سے راس کماری تک پھیل گئی تھی۔فلم بین ان کے شیدائی تھے۔اس قدیم زمانے میں بھی بے شمار لڑکیاں )ذراتصور فرمائیے کہ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے بھی من چلی لڑکیوں کا کیا عالم تھا۔ہم آج کی لڑکیوں کو الزام دیتے ہیں( انہیں خطوط لکھتی تھیں۔تصاویر اس زمانے میں اتنی عام نہیں تھیں اور نہ ہی اخبارات میں شائع ہوتی تھیں لیکن لڑکیاں سنیماؤں میں فلموں کے پوسٹردیکھ کر ہی آہیں بھرا کرتی تھیں۔
بقول ظہور انجنیئرصاحب کے وہ خطوط میں والہانہ عشق کا اظہار کیا کرتی تھیں۔آٹو گراف اور تصاویر کی فرمائش کرتی تھیں۔گل حمید کے پاس اتنے بہت سے خطوط کا جواب دینا ممکن نہ تھا اس لیے وہ ان خطوط کے جواب گول کر جاتے تھے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر501پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فلم’’ سلطانہ‘‘کے بعد گل حمید اپنی مقبولیت کے عروج پر پہنچ گئے تھے۔اس مقبولیت سے متاثر ہوکر انہوں نے اپنی ذاتی فلم بنانے کا منصوبہ بنایا۔فلم کا نام ’’خیبر پاس‘‘ تھاجس کے ہیرو اور ہدایت کار گل حمید تھے۔اس فلم میں ان کی ہیروئن کوپر تھی۔یہ غالباً کوئی مغربی خاتون تھیں کیونکہ اس فلم میں ہیرو انگریزی حکومت کا ایک باغی تھا اور کمشنر کی بیٹی کو اٹھا کر لے گیا تھا اور جو بعد میں اس کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی مگراس نے لڑکی کو بحفاظت والدین کے پاس واپس پہنچا دیا ۔اس کہانی پر مبنی پاکستان میں کئی اردو پشتو فلمیں بنائی گئیں جن میں سے اکثر کو کامیابی حاصل ہوئی۔’’خیبر پاس‘‘نے فقیدالمثال کامیابی حاصل کی اور سارے ملک میں اس کی دھوم مچ گئی۔ظاہر ہے کہ اس کامیابی کے بعد گل حمید کے ارادے بلند ہوگئے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ گل حمیدکی بیماری کا اچانک علم ہوا تھا۔اس سے پہلے وہ بالکل تندرست اور چاق و چوبند تھا۔علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ۔۔۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
گل حمید نے اس خیال سے اپنے آبائی گاؤں پیر پیائی جانے کا فیصلہ کیا کہ ممکن ہے آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث افاقہ ہوجائے۔وہاں بھی پرانے اور تجربہ کار حکیموں اور ویدوں کا علاج کرایا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ بیماری اور تکلیف میں اضافہ ہوتا رہا۔
اسی زمانے میں اے آرکار دار نے ’’پکار‘‘کے نام سے ایک فلم بنانے کا پروگرام بنایا۔وہ اس فلم میں گل حمید کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے گل حمید کو لانے کیلئے اداکار نذیر کو بطور خاص پیر پیائی بھیجا۔ادا کار نذیر گل حمید کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔وہ صحت مند اور خوب صورت انسان بیماری کی وجہ سے انتہائی لاغر اور ہڈیوں کاڈھانچہ بن کر رہ گیا تھا۔خود گل حمید نے بھی نذیر صاحب سے کہا کہ آپ نے میری حالت تو دیکھ ہی لی ہے۔آپ کا ر دارصاحب کو جا کر بتا دیں کہ وہ میرا انتظار نہ کریں۔شاید میری قسمت میں اب کلکتہ دیکھنا ہی نہ ہو۔ گل حمید کہ یہ الفاظ بحرف درست ثابت ہوئے۔ان کی بیماری بڑھتی چلی گئی۔اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید وہ کینسر میں مبتلا ہوگئے تھے۔اس زمانے میں اس بیماری کے نام سے کوئی واقف نہ تھا۔نہ ہی جدید ترین طریقوں سے ٹیسٹ کرنے اور علاج معالجے اور آپریشن کی سہولتیں موجود تھیں اس طرح یہ عظیم اور محبوب فنکار گھل گھل کر 16اپریل 1937ء کو انتقال کر گیا۔
سارے ملک میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور فلمی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی۔کئی پرستار لڑکیوں نے خود کشی کرلی لیکن جانے والے کو واپس لانا کسی کے بس میں نہ تھا۔اس طرح ہالی وڈ کے محبوب ترین ہیروایڈ ولف ویلنٹینو کی طرح ہندوستان کے اس محبوب ترین ہیرو نے بھی عین جوانی کے عالم میں دنیا کو خیر باد کہا ۔چند روز سوگ منایا گیا پھر دنیا کے دستور کے مطابق رفتہ رفتہ لوگ گل حمید کو بھول گئے۔یہاں تک کہ آج بہت سے لوگ گل حمید کو بھول گئے۔سوائے پرانے زمانے کے پرستاروں کے جو آج بھی گل حمید کی کمی محسوس کرتے ہیں اور انہیں یاد کرتے ہیں۔
ظہور انجنیئر صاحب نے یہ بھی درست لکھا ہے کہ گل حمید نے اس دور میں بھی اپنا اسلامی نام تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ اداکاروں میں ہندوانہ نام رکھنے کا رواج تھا۔حالانکہ یہ ضروری بھی نہ تھا۔بہت سے مسلمان اداکار اس زمانے میں بھی اپنے اصلی ناموں سے معروف اور مقبول ہوئے تھے۔گل حمید کی موت کے بارے میں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ شاید کسی نے انہیں زہر دے دیا تھا۔’’خیبر پاس‘‘کی ہیروئن کو پر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن کوپر نے اس زمانے میں اپنی بے گناہی کا اعلان کیا تھا اور گل حمید کے خاندان والوں کو بھی یقین دلانے کی کوشش کی تھی یہ بالکل جھوٹا الزام ہے ۔
گل حمید کے پرستاروں خاص طور پر لڑکیوں کے کئی ماہ تک خطوط موصول ہوتے رہے حالانکہ ساری دنیا کو علم ہو چکا تھا کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن دل تو پاگل ہوتا ہے۔ظہور صاحب نے اپنے مضمون کا اختتام ان سطور سے کیا ہے۔’’اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ گل حمید کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔اس زمانے میں نہ اس کی تشخیص ہو سکتی تھی ا ور نہ علاج دریافت ہوا تھا اور یہی بیماری ان کی موت کاسبب بنی۔امن گڑھ اور ہیڈپل کی جانب جنوب میں اپنے وقت کا مقبول ترین ہیرو اور لاکھوں دلوں کی دھڑکن گل حمید اپنے آبائی قبرستان میں ابدی نیند سو رہاہے۔یہاں گزرتے ہوئے ایک دفعہ مجھے ان کا خیال آیا اور میں نے ایک انگریزی روزنامہ میں ایک خط پہ عنوان "THE FORGOTTON DILIP"شائع کیا جس کو قارئین کی طرف سے کافی پذیرائی ملی تھی‘‘گل حمید نے نہ تو ہندوانہ نام اختیار کیا اور نہ ہی اپنے نام کے ساتھ’’خان ‘‘کا اضافہ کیا۔صرف اپنے اصلی نام گل حمید ہی کو فلموں مکیں بھی اپنایا۔یہ نام بذات خود ایک خوب صورت اور دلکش نام ہے جو کسی اضافے کا محتاج نہیں ہے۔
***
خاموش اور بولتی فلموں کا ذکر چل نکلا ہے تو اس سلسلے میں ایک بہت دلچسپ بات کا تذکرہ کرنا بھی نا مناسب ہوگا۔’’اردشیر ایرانی‘‘ ہندوستان کی پہلی ناطق فلم’’عالم آرا‘‘ کے خالق تھے۔پچھلے دنوں ان کے بار ے میں ایک ماہنامے میں تعارفی مضمون شائع ہوا تھا جس میں مضمون نگار نے یہ دلچسپ انکشاف کیا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی ایک فلمی ادا کار کے مقدمے کی پیروی کی تھی۔یہ اداکار فلم’’عالم آرا‘‘ کے ہیرو ماسٹرو ٹھل تھے۔انہوں نے بتایا ہے کہ ماسٹروٹھل نے جب’’عالم آرا‘‘ میں کام کیا تھا تو وہ کسی اور فلم کمپنی کی ملازمت میں تھے جس کی رو سے وہ کسی اور کمپنی فلم میں کام نہیں کر سکتے تھے مگر ملک کی پہلی بولتی فلم میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کی بات ہی کچھ اور تھی اس لیے ماسٹروٹھل سارے قاعدے قانون فراموش کرکے ’’عالم آرا‘‘ میں کام کرنے پر آمادہ ہو گئے ۔اس طرح ان کا نام فلمی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا۔اس فلم کی ہیروئن زبیدہ تھیں۔مس جلو)یہ اداکارہ نرگس کی والدہ جلو بائی ہیں( جگہ یش سیٹھی ،سہراب مودی ،یعقوب اور پرتھوی راج بھی اس فلم اداکاروں میں شامل تھے۔ یہ فلم نمائش کیلئے پیش ہوئی تو ان کی کمپنی نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا کہ وہ ہمارے تنخواہ دار ملازم ہیں اس لیے کسی اور فلم میں کام کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔اس مقدمے میں ماسٹروٹھل کی جانب سے جس وکیل نے پیروی کی وہ محمدعلی جناح تھے اور اپنی روایا ت کے مطابق وہ یہ مقدمہ جیت بھی گئے تھے۔یہ ایک عجب اور دلچسپ واقعہ ہے جس کا بہت کم لوگوں کو علم ہوگا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بمبئی میں گزارا تھا جو کہ برصغیر کی فلمی صنعت کا اہم مرکز تھا۔آج تک اس پہلو پر کسی نے روشتی نہیں ڈالی کہ اس زمانے میں فلم دیکھنے کیلئے سینما گھر میں کبھی نہ پڑھا نہ سنا کہ کسی نے قائد اعظم کو کسی سینما گھرمیں دیکھا ہو۔محمد حنیف آزاد پاکستان کے بہت ممتاز کیریکٹر ایکٹر تھے۔قیام پاکستان کے بعد وہ بمبئی سے ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔۔ان کی مستقل رہائش کراچی میں تھی مگر وہ فلموں میں کام کرنے کے سلسلے میں اکثر لاہور بھی آتے رہتے تھے۔ہماری ان سے خاصی یاداﷲ تھی۔ان کے بارے میں کافی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔حنیف آزاد کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے آبائی شہر دہلی سے بھاگ کر اداکاری کے شوق میں بمبئی پہنچ گئے تھے مگر وہاں اداکار بننے کے بجائے قائد اعظم کے دیدار کے شوق میں ان کی کوٹھی پرگئے تھے جہاں اس روز اتفاق سے ڈرائیور بن گئے ۔دراصل وہ قائد اعظم کے دیدار کے شوق میں ان کی کوٹھی پر گئے تھے جہاں اس روز اتفاق سے ڈرائیوری کے امیدواروں کے
انٹر ویو لیے جا رہے تھے۔آزاد صاحب بے خبری میں پکڑے گئے اور پھر خوش قسمتی سے قائد اعظم نے ان کا انتخاب بھی کر لیا حالانکہ وہ کار ڈرائیونگ سے نا واقف تھے لیکن قائد اعظم کی ملازمت کے شوق و جوش میں ملازمت قبول کر لی ۔بعد میں جو واقعات پیش آئے وہ انہیں بہت احترام کے ساتھ مزے لے لے کر سناتے تھے۔وہ کہیں سعادت حسن منٹو کے ہاتھ لگ گئے۔منٹو صاحب نے ان سے کافی دیر تک بات چیت کی اور پھر ان کی تمام گفتگو’’میرا صاحب‘‘کے عنوان سے ایک خاکے صورت میں تحریر فرمائی۔یہ خاکہ روزنامہ’’آفاق‘‘ میں شائع ہوا تھا اور ہم ظہورعالم شہید صاحب کی جانب سے سنڈے ایڈیشن مرتب کرنے کے ذمے دار تھے۔اس خاکے میں آزاد صاحب نے قائد اعظم کی زندگی کے کئی نا معلوم پہلو بھی بیان کیے تھے۔حنیف آزاد کا بیان اور منٹو صاحب کا انداز تحریر اس پر مستزاد۔یہ خاکہ اردو کے چند بہترین خاکوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔یہ تمام واقعات اس سے پہلے بیان کیے جا چکے ہیں۔اس وقت اس تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ آزاد صاحب نے بھی قائد اعظم کی زندگی کے اس پہلو پر روشنی نہیں ڈالی کہ آیا وہ کبھی فلمیں دیکھتے تھے یا نہیں۔قیاس یہی ہے کہ قائد اعظم کو فلموں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور شاید انہوں نے کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی ۔کم از کم بمبئی کے دوران قیام میں تو نہیں دیکھی۔ممکن ہے لندن میں طالب علم کے زمانے میں فلم بینی کی ہو۔)واﷲ اعلم بالصواب(اگر کوئی صاحب اس بارے میں علم رکھتے ہوں تو ضرور دوسروں کی معلومات میں اضافہ کریں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)