”کشمیر میں کرفیوکے تین ہفتے اور امہ کی کارروائی! “
متحدہ عرب امارات نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے نواز دیا ہے ۔ متحدہ عرب امارات کا ”زید “نامی یہ ایوارڈ خود ولی عہد محمد بن زایدنے اپنے دست مبارک سے مودی کے گلے میں پہنا کر جمہوریت اور عالمی امن کیلئے ان کی خدمات کا اعتراف کرکے گویا ان کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی پرامن سرگرمیاں جاری رکھنے کی آشیر باد دی ہے ۔ محمد بن زید نے مودی کو یہ ایوارڈ دینے کا اعلان رواں برس ان کی خدمات کے اعتراف میں کیا تھا جو شائد کچھ ماہ بعد مودی کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں وقوع پذیر ہونیوالی تھیں۔ولی عہد محمد بن زایدنے کہا تھا کہ امارات کے بھارت کے ساتھ تاریخی اور سٹریٹیجک تعلقات ہیں جن کو مزید مضبوط کرنے میں پیارے دوست مودی کا بڑا ہاتھ ہے ۔امارات کے اس سب سے بڑے سول ایوارڈ ”زید میڈل“‘ سے اب تک برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ ، روسی صدر پوٹن اور چین کے صدر سمیت کئی عالمی رہنماﺅں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں نوازاجاچکاہے ۔
یواے ای کی جانب مودی کی خدمات کا بجا طور پر اعتراف کئے جانے کے بعد پاکستان کے عوام امہ کی اس حرکت پر شدید چیں بہ چیں ہیں جبکہ حکمران بھی اس ناراضی میں اپنا تھوڑابہت حصہ ڈال رہے ہیں جیسے ہمارے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی مزید ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے عرب امارات کا دورہ احتجاجاً منسوخ کرکے دیگر قائدین ملک وملت پر سبقت لے گئے ہیں ۔ ان کا یہ کہنابجا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میرے کشمیری بہن بھائی محصور ہوں اور میں ان حالات میں یو اے ای کا دورہ کروں، دورہ پہلے سے طے شدہ تھا تاہم مودی کو ایوارڈ ملنے کے بعد وہاں میرا جانا اور یو اے ای حکام سے ملنا مناسب نہیں تھا ۔ چیئر مین سینیٹ نے یہ کہہ کر پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کردی ہے البتہ ایک دو دن بعد اس پر غور کیا جاسکتاہے ۔
ایسے میں اپنے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری جواپنی حقیقت بیانی اورشعلہ بیانی کے باعث اندرون ملک ایک خاص پہچان رکھتے ہیں نے صاف کہہ دیاہے کہ ایسی لیڈرشپ کا کیا فائدہ جو اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی؟البتہ اس کے ساتھ ان کی جانب سے یہ بات بھی کردی گئی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ملک کشمیریوں کا درد محسوس نہیں کرتا تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ وہ اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں ؟ آخر ہم پاکستانی جنہوں نے ستر سالوں سے امہ کے درد کا ٹھیکہ لے رکھا پتہ نہیں اس سے کیا امید رکھتے ہیں؟ اگرچہ فواد چودھری کابیان بہت برمحل ہے کہ اس قیادت کا کیا فائدہ جو کشمیریوں کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی تو وزیر محترم کی خدمت میں نہایت ادب سے عرض ہے کہ حضور یہ قیادت تو آج تک اپنے فلسطینی عرب بھائیوں کے ساتھ کھڑ ی نہیں ہوسکی ، کشمیریوں کے ساتھ کیا کھڑ ی ہوگی اور کھڑی ہوبھی گئی تو کون ساتیر مار لے گی ؟ ان کوبس مودی وغیر ہ کوایوارڈ دیتے ہی رہنے دیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس نازک موقع پرپاکستانی قوم کوحوصلہ دیاہے اور کہا کہ امہ کے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات ہیں۔ ہم کو بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ جذبات سے بالاتر ہوکر دیکھناہوگا ۔ متحدہ عرب امارات پاکستان کادوست ملک ہے ، امید ہے یو اے ای پاکستان کومایوس نہیں کرے گا۔ انہوں نے قوم کو اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ وہ بہت جلد یواے ای کے وزیر خارجہ سے مل کرحقائق پیش کریں گے ۔ وزیر خارجہ کی اس بات سے عام پاکستانیوں کی دھاڑس بندھی ہے کہ شائد شاہ صاحب کی اماراتی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد امہ کے دل میں کشمیری مسلمانوں کے لئے دبی ہوئی رحم کی کوئی چنگاری پھوٹ پڑے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی صورت نکل آئے کیونکہ اس نازک وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی انتظامیہ کی جانب سے کرفیوکانفاذ کئے تین ہفتے گزر چکے ہیں امہ کی حمایت بہت ضروری ہے اور وقت کا تقاضہ بھی ہے ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔