طالبان کی جاسوسی میں سنی ہوئی گفتگو(1)
میں نے چھے سو گھنٹوں تک اُن لوگوں کی باتیں سنی ہیں جو اس وقت افغانستان چلا رہے ہیں۔ اپنے دورے کے ا ٓخر میں مجھے کہیں جا کر سمجھ آئی کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔
جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں افغانستان میں کیا کرتا رہا تو میں اُنہیں بتاتاہوں کہ میں طیاروں میں بیٹھا طالبان کی باتیں سنتا تھا۔ میرا کام اتحادی افواج کو ”ممکنہ خطرے“ سے باخبر رکھنا تھا۔ اس لیے میرا زیادہ تر وقت طالبان کے منصوبوں کی سن گن لینے میں گزرا۔ اس میدان میں آنے سے پہلے مجھے خبردار کیا گیا تھا کہ مجھے خوف ناک باتیں سننے کو مل سکتی ہیں،اور یقینا میں نے سنیں۔ لیکن جب آپ سینکڑوں گھنٹوں تک لوگوں کی باتیں سنتے ہیں، اور چاہے وہ لوگ آپ کے دوستوں کو ہلاک کرنے کے درپے ہوں، اس دوران آپ اُن کی معمول کی گفتگو، گپ شپ وغیرہ بھی سنتے ہیں۔
بعض نادر مواقع پر اُن کی باتیں سن کرمجھے ہنسی بھی آجاتی تھی۔ شمالی افغانستان جس کی اوسط بلندی سات ہزار فٹ، اور درجہ حرارت نقطہ ئ انجماد سے نیچے رہتا ہے، میں ایک موسم سرما کے دوران مجھے مندرجہ ذیل گفتگو سننے کو ملی:
”جاؤ، اُس موڑ پرآئی ای ڈی (خود ساختہ دھماکہ خیز ہتھیار)لگاکر آؤ۔ اُنہیں یہ نظر نہیں آئے گی۔“
”اس کے لیے صبح تک کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔“
”نہیں، ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ (امریکی) بہت جلدی بھی آسکتے ہیں، اور ہمیں یہ وہاں لگانی ہے تاکہ جتنے امریکیوں کو ہلاک کرسکتے ہیں، کرلیں۔“
”میرا خیال ہے کہ میں انتظار کروں گا۔“
”نہیں، تم نہیں کرسکتے۔ جاؤ اسے لگا کر آؤ۔“
”کیا یہ ضروری ہے؟“
”بالکل! جاؤ اسے لگاؤ“
”میرا دل نہیں کررہا۔“
”بھائی،کیوں نہیں؟ ہمیں جہاد کرنا ہے!“
”بھائی۔۔۔۔۔۔۔ اتنی سردی میں جہاد!“
جی ہاں۔ یہ مزاحیہ جملہ اُس منصوبے کے دوران سننے میں آیا جواُن افراد کو ہلاک کرنے کے لیے بن رہا تھا جن کی ممکنہ حفاظت پر میں مامورتھا۔ بایں ہمہ بات تواحمقانہ ہی تھی۔ اور یقینا وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ ہم اپنے جہاز میں گرم اونی ملبوسات اور دستانے پہن کر بیٹھے تھے لیکن اتنی سردی محسوس ہورہی تھی کہ جنگ کا تصور بھی محال تھا۔
2011ء میں دنیا کے بیس افراد کو اس کام کی تربیت دی گئی تھی جو میں کررہا تھا۔ عملی طور پر صرف دو افراد ہی اس تربیت کو مکمل کر پائے تھے۔ ان میں سے ایک میں تھا۔ ہمیں پشتو اور دری زبانیں سکھائی گئیں۔ افغانستان میں زیادہ تر یہی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہمیں ایفسوک طیارے(ایئرفورس سپیشل آپریشنز کمانڈ:AFSOC) میں لسانی خدمات کی خصوصی تربیت دی گئی۔ ایفسوک کے پاس کم و بیش ایک درجن اقسام کے طیارے ہیں، لیکن میں زیادہ تر گن شپ طیاروں میں پرواز کرتا۔ یہ طیارے کئی ایک مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ سب کارگو طیارے ہیں جن میں مختلف ہتھیار نصب کیے جاسکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کی تباہ کن صلاحیت بھی مختلف درجوں کی ہے۔ کچھ طیارے محض ایک کار کو نشانہ بنا سکتے ہیں، کچھ پوری عمارت کو تباہ کرسکتے ہیں۔ افغانستان میں ہم ان ہتھیاروں کو انسانوں کے خلاف استعمال کررہے تھے۔ اور میرا کام اُن افراد کا تعین کرنا تھاجنہیں نشانہ بنایا جانا مقصود تھا۔ یہاں میں ”خطرے سے خبردار کرنے“ کی دوٹوک الفاظ میں، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر تشریح کررہا ہوں۔
میں نے چھے سو گھنٹوں کے دوران ننانوے جنگی مشن کیے۔ شاید ان میں سے بیس مشن اور پچاس گھنٹے عملی طور پر جنگی کارروائیوں میں صرف ہوئے تھے۔ غالباً مزید ایک سو گھنٹے دشمنوں کے مذموم منصوبے سنے گئے۔ ہم اسے ”مفید معلومات“ کہتے تھے۔ لیکن باقی وقت اُن کی بے معنی باتیں تھیں۔ اُن کی نجی گفتگو اور گپ شپ تھی جو میں نے سنی۔
جہاد کے متعلق مذاق کے علاوہ اُنہوں نے بہت سی ایسی باتیں بھی کیں جو آپ اور آپ کے قرب وجوار کے افراد کرتے ہیں: کھانے کے منصوبے، ہمسایوں کے بارے میں گپ شپ، سڑکوں کی خراب حالت، اور نامساعد موسمی حالات جو جنگی منصوبوں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھے۔اس کے علاوہ اُن کے درمیان آپس میں لڑائی جھگڑا، نوک جھونک، گالی گلوچ،شکوہ شکایت، سب کچھ جو انسانوں کی گفتگو میں شامل ہوتا ہے۔ وہ مستقبل کے سہانے خواب بھی بیان کرتے تھے کہ جب امریکی یہاں سے چلے جائیں گے اور وہ اپنے ملک میں مزے کریں گے۔
لیکن زیادہ تر فضول باتیں ہی ہوتی تھیں۔
پشتو اور دری زبانیں قدرتی طور پر ذومعنی اور توہین آمیز مطالب رکھتی ہیں۔ ان میں ہم آواز الفاظ کی بہتات ہے۔ بہت سے الفاظ دہرے مطالب کے حامل ہوتے ہیں۔ کچھ فضول گوئی کا تعلق ایک ہی بات کو دہراتے چلے جانے کے شغف سے بھی تھا۔ جن افغانوں سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا، وہ کسی ایک نام یا بیان کو درجنوں مرتبہ دہراتے چلے جاتے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ شاید اپنی بات میں وزن پیدا کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب وہ ریڈیو پر بات کرتے تھے تو تواتر کہیں زیادہ بڑھ جاتا تھا۔کلیمہ(Kalima) نامی ایک شخص سے مجھے اس کی بخوبی آگاہی ملی۔ ہم میں سے کسی کو نہیں پتہ تھا کہ کلیمہ کون ہے، لیکن ہمیں احساس تھا کہ وہ کوئی اہم شخص نہیں۔ لیکن کوئی نامعلوم شخص اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔اس نے کلیمہ نام لیا، اس طرح:……” کلیمہ!کلیمہ، کلیما، کلیم آ آ، کلیمہ، کلیمہ، کلیمہ، کلیمہ“
اس نے کم از کم از پچاس مرتبہ کلیمہ کا نام ہر ممکن تلفظ اور لہجے کے ساتھ دہرایا۔ میں ہمہ تن گوش تھا، لیکن کلیمہ کا کوئی جواب نہ آیا۔ ممکن ہے کہ اس کا ریڈیو بند ہو۔ ممکن ہے کہ وہ اس سے بات نہ کرنا چاہتا ہو۔ ممکن ہے کہ وہ مرچکا ہو۔ عین ممکن ہے کہ وہ میری ہی گولی کا نشانہ بنا ہو۔ جو بھی تھا، میں نے کلیمہ کو ریڈیو پر جواب دیتے نہ سنا۔ (جاری ہے)