بھارت پرانی غلطیاں نہ دہرائے
افغانستان پر سویت یونین اور امریکی استعمار کے دوران مہاجرین بے یارو مددگار ہو کر جس طرف رخ ہوا پناہ کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے جس پر اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں چودہ لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین موجود ہیں جس نے پاکستان کودنیا بھر میں مہاجرین کو پناہ دینے والے ملکوں میں سرفہرست لا کرکھڑا کر دیا ہے انہی اعداد و شمار کے مطابق دس لاکھ مہاجرین ایران میں پناہ گزین ہیں حالانکہ ان کی کل تعداد تقریباً 46لاکھ ہے باقی ابھی تک رجسٹرڈ نہیں ہو سکے اسی دوران بھارت نے بھی افغان مہاجرین کو محدود پیمانے پر پناہ دی جس کو بظاہر تو انسانی حقوق سے تعبیر کیا جاتا ہے مگربھارت نے روسی استعمار کے دوران پناہ لینے والے مہاجرین کی خاص تربیت کرکے ان کو امریکی استعماری دور میں افغانستان میں واپس بھیجا پھر افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے ان تربیت یافتہ بھارتی ایجنٹوں کی مدد سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور دھشت گردی کے سیل قائم کیے جہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی نرسری چلائی جاتی رہی چینی انجینئروں پر حملہ کیا گیا گزشتہ کافی عرصے سے بلوچستان کے دیگر علاقوں کو بھی ہدف بنایا گیا جس کا اعتراف بھارتی جاسوس کلبوشن یادیونے بھی کیا اسی نیٹ ورک کے تحت کئی سال تک لگاتار پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم رھا پشاور میں آرمی سکول پر حملہ، حالیہ لاہور بم دھماکہ بھی بھارتی تربیت یافتہ ایجنٹوں کا کام تھا ’اگست 2020 سے انڈیا نے کالعدم ٹی ٹی پی، جے یو اے، بی ایل اے کو یکجا کیا اور پھر ’ان کالعدم تنظیموں کواسلحہ، گولہ بارود دے کر پاکستان میں کارروائیوں کے لیے اکسایا۔
ایک بار پھر بھارت نے موقع غنیمت جان کر طالبان کے طاقت میں آنے کو جواز بنا کر پناہ گزینوں کو بھارت میں پناہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ای ویزہ کا اجرا کیا ہے جس کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان کے ہندو اور سکھ برادری کو خاص طور پر بھارت آنے میں ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا،”ہم افغان سکھ اور ہندو برادری کے نمائندوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اگر وہ افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں بھارت لانے میں ہر ممکن مدد کریں گے۔"
افغان پناہ گزینوں کو بھارت میں لاکر ایک مرتبہ پھر ناصرف تاریخ د ہرائی جارہی ہے بلکہ یہ اعلان صرف خاص طبقہ کے لیے کیا گیا ہے جس کا مقصد ہندو توا کا نظریہ ہے اگر انسانی حقوق کی بات ہوتی تو یہ اعلان افغان مسلمانوں کے لیے بھی کیا جاتا یا پھر مذہبی معاملات کو ایک طرف رکھ کر انسانی ہمدردی کی بات کی جاتی۔
ہندوستان ہمیشہ ہی سے طالبان کو دھشت گرد قرار دیتا آیا ہے اور ان سے بات چیت نہ کرنے پر مصر رہا ہے لیکن اب ھندوستان تذبذب کا شکار ہے کہ چین و پاکستان کے موقف کی حمایت کرے یا علاقے کی بدلی ہوئی صورتحال کے پیش نظر کچھ وقت انتظار کرے اور امریکی موقف کی حمایت کرے افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت کے سامنے تین اہم سوالات ہیں۔ امریکا اور نیٹو ممالک کی تربیت یافتہ تین لاکھ سے زیادہ افغان آرمی اور پولیس فورس نے محض 60 ہزار جنگجووں کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیک دیےِ؟ یہ کہ افغان مذاکرات کے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل ہی امریکا نے آخر اپنی فوج کو بلا شر ط واپس بلا لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جبکہ یہ بات تقریباً سب کو معلوم تھی کہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان بڑی تیزی سے پیش قدمی کریں گے۔ لیکن تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کون سا امر بھارت کو طالبان کے ساتھ رابطہ کرنے کی راہ میں مانع تھا اور اب وہ کیا کرسکتا ہے؟ گوتم مکھوپادھیائے کاخیال ہے کہ اب جبکہ طالبان نے افغانستان کااقتدار حاصل کرلیا ہے تو ان کے ساتھ بات چیت کرنے یا نہ کرنے کی بحث محض لفظی نوعیت کی رہ جاتی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر حال ہی میں نیویارک روانہ ہوئے جس میں افغانستان کی صورت حال اور طالبان کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو شاید اب اتنا اہم نہیں رہا تاہم خطے میں اتنا اہم واقعہ رونما ہو جانے کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا، جسے نئی دہلی کی پریشانی سے تعبیر کیا جارہا ہے بھارتی میڈیا اور عوام بھارتی حکومت کی خاموشی پر کافی حیران ہیں اور خوف کا شکار ہیں۔اب بھارت کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے کہ بھارت کشمیر سمیت پاکستان و چین کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کرے اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے۔