بجلی صارفین کے لیے بڑا ریلیف
وفاقی حکومت نے200یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے مجموعی طور پر ایک کروڑ70 لاکھ صارفین کے لیے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کر دیئے ہیں، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی مد میں تقریباً20 ارب روپے کا ریلیف صارفین کو دیا گیا ہے،تاجروں پر فکس ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اب پرانے طرز پر ہی اُن سے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ادھر لاہور ہائی کورٹ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج کے خلاف دائر درخواستوں پر عبوری فیصلہ سناتے ہوئے ایف پی اے سرچارج کو منہا کر کے بل جمع کرانے کا حکم دیا ہے،عدالت نے 14ستمبر کو تمام فریقین سے تفصیلی جواب بھی طلب کر لیا ہے، پچھلے چند ماہ سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسوں کی وجہ سے صارفین کے بل دو گنا سے بھی زیادہ آ رہے تھے، جولائی کے بلوں نے تو عوام پر قیامت ڈھا دی اور اصل بل کی نسبت ایف پی اے سرچارج کی رقم زیادہ لگ کر آئی جس کے باعث عوام کی چیخیں نکل گئیں،شہر شہر مظاہرے شروع ہو گئے اور عوام نے بجلی کے بلوں کو پھاڑ کر پھینکنا شروع کر دیا،بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے ذیلی دفاتر پر حملے بھی ہوئے اور سڑکیں بھی بلاک کی گئیں،بڑھتے عوامی احتجاج پر وزیراعظم شہباز شریف نے ایک خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج کا معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی،انہوں نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی بنائی،اُس کے بعد جب وہ دورہئ قطر پر گئے تو انہوں نے وہاں یہ اعلان کیا کہ ایک کروڑ 70لاکھ صارفین کے بلوں سے ایف پی اے سرچارج کا بوجھ ہٹا دیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی وزیر پانی و بجلی خرم دستگیر نے اس کی وضاحت کی کہ200یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں پر یہ سرچارج نہیں لگے گا جن کی تعداد پونے دو کروڑ کے قریب ہے،یہ اگرچہ ایک اچھا ریلیف ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں کیونکہ200 یونٹ سے زائد استعمال کرنے والے سفید پوش طبقے کے مالی وسائل بھی اتنے نہیں کہ وہ اس اضافی بوجھ کو برداشت کر سکے۔لاہور ہائی کورٹ نے تو یکساں طور پر تمام بلوں سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج منہا کرنے کا حکم دیا ہے تاہم یہ صرف لیسکو کی حد تک کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی ماندہ تقسیم کار کمپنیاں بھی اس حکم پر عمل کریں گی؟ اس بارے میں فی الوقت کوئی اعلان سامنے نہیں آیا، حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے بہت دور جا چکی ہیں اور بعض گھرانے تو ایسے ہیں کہ جن کی ماہانہ آمدنی کا 70 فیصد بجلی کے بل کی مد میں نکل جاتا ہے، باقی 30فیصد سے وہ گزارا کیسے کریں انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔
حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں کیونکہ گردشی قرضہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے رحم کرم پر ہے جن کے ساتھ ہونے والے معاہدے پاکستانی معیشت کے لیے عذاب بن گئے ہیں، مہنگی بجلی کے معاہدے اور کمپنیوں کو زرمبادلہ میں ادائیگی تو ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں بجلی سستی ہونے کا امکان معدوم ہوتا چلا جا رہا ہے۔عمران خان کے دورِ حکومت میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بجلی کمپنیوں سے معاہدوں پر نظرثانی کی جا رہی ہے یہ بھی کہا گیا کہ اب انہیں ادائیگی پاکستانی روپے میں کی جائے گی مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی کیونکہ ان معاہدوں کو بین الاقوامی قواعد کے تحت تحفظ حاصل ہے اور انہیں حکومت یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کر سکتی،یہی وجہ ہے کہ حکومت کوئی بھی ہو بجلی کا اونٹ آج تک خیمے میں بند نہیں کر سکی بلکہ یہ عذاب بن کر صارفین پر ٹوٹتا رہا ہے، بجلی کی پیداوار چونکہ تیل سے منسلک ہے اس لیے اُس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ بجلی کے نرخ میں اضافے کا باعث بنتا ہے،اسی مسئلے سے نمٹنے کے لیے وجہ سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج ایک علیحدہ مد نکالی گئی تاکہ تیل کی قیمت میں اضافے کا بوجھ صارفین پر ڈالا جا سکے تاہم بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو جب نیپرا نے بغیر کسی فارمولے کے صرف یونٹ کی قیمت بڑھا کر بلوں میں اضافے کی اجازت دے دی تو انہوں نے صارفین پر واقعتا بجلیاں گرا دیں، حالات اتنے خراب ہوئے کہ خود حکومت کو عوام کے اضطراب کا نوٹس لینا ہی پڑا۔
اس سارے معاملے میں جو حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہماری معیشت خسارے کے ایک نہ ختم ہونے والے دباؤ کا شکار ہے، یہ خسارہ صرف یہی نہیں کہ مہنگی بجلی خرید کر صارفین کو سستی بیچنی پڑتی ہے بلکہ ہمارے کئی ادارے ایسے ہیں جو سفید ہاتھی بن چکے ہیں اور ہر سال اربوں روپے انہیں چلانے کے لیے خرچ کرنے پڑتے ہیں،ہمارے ہاں ایک پرائیوٹائزیشن کمیشن عرصہ دراز سے قائم ہے اور اس کے لیے ایک وزیر بھی مقرر کیا جاتا ہے مگر قومیائے گئے اداروں کی نجکاری ہو یا خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی فروخت،اِس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت کئی ایسے ادارے ہیں جو صحیح معنوں میں قومی خزانے پر ایک مستقل بوجھ ہیں،غریب اور مقروض معیشت جو پہلے ہی سسک رہی ہے ایسے اداروں کے خسارے کا بوجھ بھی برداشت کرتی ہے جو معیشت آمدنی و خرچ کے ایک بڑے تفاوت کا شکار ہیں، خسارہ پورا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے اوراُس پر ایسے عوامل ناقابل برداشت بوجھ بن جاتے ہیں۔کسی بھی ملک میں قومی خزانے کی آمدنی کا ذریعہ ٹیکسوں کا ایک منصفانہ اور فعال نظام ہوتا ہے جو ہمارے ہاں آج تک پنپ نہیں سکا۔22کروڑ کی آبادی میں چند لاکھ ٹیکس گزار اور باقی بالواسطہ طور پر ٹیکسوں کا شکار عوام اس معیشت کو چلا رہے ہیں،حکومتیں اتنی ہمت نہیں پاتیں کہ وہ براہ راست ٹیکس نافذ کر سکیں۔ تاجروں پر ٹیکس لگایا جائے تو وہ ہڑتالوں پر اُتر آتے ہیں اور حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے،صنعت کاروں اور سرمایہ داروں پر براہ راست ٹیکس لگاتے ہوئے حکومت کو ویسے ہی خوف آتا ہے، باقی رہ جاتے ہیں عوام جن پر جنرل سیلز ٹیکس اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ جیسے ٹیکسوں کا نفاذ کر کے حکومت اپنا کام چلانے کی کوشش کرتی ہے جس کے نتیجے میں معیشت بہتر نہیں ہوتی کیونکہ مہنگائی کے باعث عوام کی قوت خرید ہی کم ہو جاتی ہے۔ اِس وقت کرنے کے دو بڑے کام یہ ہیں کہ کسی طرح بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے معاملات کو درست کیا جائے، دوسرا نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے تاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں سے جان چھڑائی جا سکے اور وہی پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ بڑے اور جرأت مندانہ فیصلوں کے بغیر ملک کو معاشی دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا۔