یوم تاسیس پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒسے خواب میں ملاقات
جماعت اسلامی پاکستان کا یوم تاسیس 26 اگست 1941 بڑی اہمیت کا حامل ہے جب پورے عالم میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی گئی جس نے دین کو ایک مکمل شکل میں پیش کیا، اسلام ایک دین ہونے کی بجائے مسجد، ممبر، محراب، درباروں پر عرس، درگاہوں کی حد تک محدود تھا۔ انگریز کی غلامی میں مسلمان عبادات کو ہی مکمل دین سمجھتے تھے کیونکہ انگریز کو یہ پسند تھا۔ اس دور میں غلبہ اقامت دین، اسلامی معیشت، اسلامی نظام حکومت جیسے عنوانات پر بات کرنی مشکل ہی نہیں ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ چونکہ ہر مشکل دور میں اللہ تعالیٰ فرعون کے ساتھ موسیٰ کو بھیجتا ہے، ایسے دور کا آغاز ہوتا ہے جہاں اسلام کو مذہب کی حد تک محدود کر دیا گیا وہاں آواز اٹھنی شروع ہوئی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں علامہ محمد اقبالؒ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، عرب میں امام حسن البناء جیسے اسلامی سکالرز نے آواز بلند کی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عبادات کے ساتھ، نظام حکومت, نظام معیشت، معاشرت اور ذندگی کے تمام پہلوؤں کو قرآن و سنت کی روشنی میں استوار کیا جائے۔ اس کے لئے ایک الگ وطن کی کوشش کی جائے جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہوگی، ایک ایسی ریاست وجود میں آئے گی جو مدینہ کی طرز پر دنیا کی قیادت کرے گی۔ اس کے لئے نظریاتی، فکری اور سیاسی محاذ پر قائداعظم محمد علی جناحؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کوشش کا نتیجہ تھا ایک اسلامی ریاست پاکستان وجود میں آئی۔
سید ابوالاعلی مودودی سے اپنی زندگی میں ملنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کے لٹریچر سے ضرور استفادہ ضرور کیا، تفہیم القرآن کی شکل میں خوبصورت موتی جو بکھیرے ہیں وہ ان کی خوشبو سے پوری دنیا معطر ہو گئی ہے۔ میری مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے خواب میں ملاقات ہوتی ہے جو جماعت اسلامی کے یوم تاسیس پر حاضر خدمت ہے۔ یوم تاسیس پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تحریک ِ اسلامی کے دائرہ عمل کی نشان دہی کرتے ہوئے رہنمائی عطا فرمائی، جماعت اسلامی کے لیے دْنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرہ عمل میں آتی ہے۔
جیسے ہی تاسیسی پروگرام ختم ہوا, میں ملاقات کے لئے خواب میں آہستہ آہستہ سید ابوالاعلی مودودی نو منتخب امیر جماعت کے پاس حاضر ہوا, انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا کہاں سے آئے ہیں میں نے جواب دیا میں لاہور شہر کا باسی ہوں، میری آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے انہیں پریشانی بھی ہوئی اور حوصلہ دیا اور پوچھا بتاؤ کیا بات ہے پھر میں نے انہیں بتایا، آج ہمارے امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہیں، انہوں نے اپنا کام دیانتداری سے کیا، سپریم کورٹ نے موجودہ امیر جماعت کو دیانتداری کے القاب سے پکارا، باقی قیادت پر بھی کوئی کرپشن کا الزام نہیں لیکن سیاست کے میدان میں بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ میرے اس سوال کے جواب پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا ہمارا کام دعوت سے شروع ہوتا ہے اور قیادت تک پہنچتا ہے غلبہ دین کے لئے ہمیں اپنے درج ذیل لائحہ عمل کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا، یہ لائحہ عمل چار اجزاء پر مشتمل تھا یعنی (1) افکار کی تطہیر اور تعمیر نو (2) صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت (3) اجتماعی اصلاح کی سعی (یعنی اصلاحِ معاشرہ) اور (4) نظامِ حکومت کی اصلاح ہمیں کامیابی کے لئے اسی ترتیب کو سامنے رکھنا ہوگا، یہ ممکن نہیں کہ ہم پہلے تین نکات پر کام نہ کریں ور چوتھے نکتے کو حاصل کر لیں، اور ہمارا مقصود بیج لگانا، پانی دینا پھر پودے کی دیکھ بھال کرنا ہے اور پھر جب تناور درخت بن جائے گا جو اسلامی تحریک کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا۔ ہمیں اپنا کام کرنا ہے اور اپنی آخرت کو کھوٹا ہونے سے بچانا ہے یہاں تک غلبہ دین کی جدوجہد میں جان دے دینی ہے، کامیابی میرے رب نے دینی ہے مجھے سے اور آپ سے اپنی کوشش اور جدوجہد کی جواب دہی ہو گی۔ہمیں اپنی ذندگی کا محور سیرتِ نبوی کو بنانا ہوگا، اس تحریک کے لئے سب کچھ قربان کرنا ہوگا، ہمارا کردار اپنی اپنی آبادیاں میں روشنی بکھیرے گا وہ عام افراد سے بہت آگے ہونا چاہئے، لوگوں کی خدمت اور انہیں دوزخ کی آگ سے بچانا ہمارا مقصد ذندگی ہونا چاہیے۔ اپنے اپنے حصے کے چراغ جلانے ہوں گے، پھر یہ چمن معمور ہوگا کلمہ توحید سے، جس پر علامہ محمد اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا تھا:
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی!
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ? خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے!!
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ملاقات میں امید کے چراغ جلاتے رہے، بندے کا قرآن و حدیث رشتہ مضبوط کرنے کی تلقین کرتے رہے، پھر کچھ دیر خاموش رہے اور بولے کامیابی کے لئے ضروری ہے ہمارے کارکنان، ذمہ داران کے درمیان مضبوط رشتہ ضروری ہے منزل دنیا ہو لیکن وہ آخرت کی کامیاب سے برتری نہ لے جائے۔ قرآن، حدیث اور جدید علوم پر عبور حاصل کرنے اور لوگوں کو قائل کرنے کے لئے مطالعہ ضروری ہے۔ دنیا آپ کی طفل مکتب ہوں، دین اور دنیا کا علمی امتزاج ہو۔
اگلا سوال مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے مجھے کیا میرا پاکستان کیسا ہے جو مدینہ کی ریاست کے بعد پہلی اسلامی ریاست بنی تھی، میرے پاس شاید کوئی جواب نہیں تھا، شرمندگی کے مارے میری آنکھیں نم تھیں، میں نے آہستگی سے جواب دیا کہ ہمارے حکمران کرپشن میں کھو گئے، کشمیری پابند سلاسل ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے, آپ کے ساتھی مولانا مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادر ملا، مولانا غلام اعظم جنہوں نے پاکستان کو دو ٹکڑے ہونے سے بچانے کے لئے 1971ء میں قربانیاں دیں، بنگلہ دیش میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے حکمران اور فوج جن کے لئے قربانی دی تھی خاموش ہیں۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے حکومت وقت کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا تاریخ میں بہت سے فرعون، نمرود، ابوجھل آئے لیکن کامیاب ہمیشہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وسلم، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام ٹھرے۔ اس لئے حق پر ثابت قدم رہیں ایک دن ضرور اسلامی انقلاب آئے گا۔
میں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے کہا کہ انڈیا میں آپ کے لٹریچر پر علی گڑھ یونیورسٹی میں پابندی لگا دی گئی ہے، ساتھ ہی وہ بولے کفر کو یہ اندازہ ہے کہ اسلام ایک دن پوری دنیا پر غالب آئے گا اور کفر ختم ہو جائے گا اس وجہ سے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے کیونکہ روشنی اپنا راستہ خود بناتی ہے اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے پوچھا امیر جماعت اسلامی پاکستان کون ہیں میں نے جواب دیا سراج الحق ہیں جنہیں تمام اداروں نے امانت اور دیانت کی وجہ سے تحسین پیش کیا ہے۔ آخر میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے کہا کہ میرا پیغام سراج الحق اور کارکنان کو دینا، جس راستے پر آپ چل رہے ہیں یہ ہی حق کا راستہ ہے اس پر ثابت قدم رہیں، مایوس نہ ہوں تم ہی غالب رہوگے۔ پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے رہنمائی حاصل کریں اور قرآن مجید کو اپنا محور مرکز بنائیں، باطل قوتیں سرمائے، ظلم کے ساتھ ہمیشہ حق کو ختم کرنے کی کوشش کرتی رہیں لیکن حق ہمیشہ نکھر کر سامنے آئے گا۔ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ۔
آج 82 گزرنے کے بعد، اس کاروانِ شوق کو پوری دنیا میں منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے گزر گئے، نہ کوئی طاقت ہماری منزل کو کھوٹا کرسکی نہ ہی ہم نے راستہ بدلا اس لئے فکری یگانگت کے ساتھ حق کے راہی گرمِ سفر ہیں۔ یہ شجر طیبہ برگ و بار لا رہا ہے، قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور کن منزلوں سے ہوتا ہوا کہاں تک پہنچا ہے، اور کتنا سفر باقی ہے۔ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں اسلامی انقلاب کی روشنی سے استفادہ حاصل کریں گی۔ اور پوری دنیا پر اسلام کا پھریرا لہرائے گا۔مسلمانوں کی شاندار تاریخ دوبارہ ثمرقند، بخارا، اندلس، بندوستان کی طرح پوری دنیا میں اپنا لوہا منوائے گی۔