30دن کے لیے سیاسی دکانیں بند کر کے سیلاب ریلیف ایمرجنسی لگائی جائے
گزشتہ چند ہفتوں سے متعارف کرایا جانے والا نیا سیاسی کلچر عوام میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کی بجائے جمہوریت سے بیزاری کا باعث بن رہا ہے،بدزبانی،الزامات، کردار کشی، بھارتی ایجنٹ ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کی رٹ اِس انداز میں لگائی گئی ہے کہ عوام کو گزشتہ 25سال کی سیاست ایک دفعہ پھر یاد آنے لگی ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو،محترم میاں نوازشریف،محترم جنرل مشرف، محترم بلاول بھٹو، محترم عمران خان اور اب محترم میاں شہباز شریف کا دورِ اقتدار ایک ایک حکمران کا ماضی الیکٹرونک میڈیا نے بالعموم اور سوشل میڈیا نے بالخصوص ہر ایک کا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دیا ہے، سیاست دانوں کے قول و فعل کا تضاد بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے۔2018ء کی اسمبلی سے منتخب ہونے والے عمران خان کو جمہوری انداز میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی روایت اور پھر 2018ء کیاسمبلی سے ہی میاں شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے اور 13جماعتوں کے اتحاد کی حکومت نے ہماری جمہوریت کے ماضی اور حال کو کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان دنوں سابق وزیراعظم عمران خان کو غدار ثابت کر کے دہشت گرد بنانے تک کی کہانی نے ماضی کے بہت سے چہروں سے نقاب الٹ دیا ہے۔میڈیا کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی روزنامہ ”جنگ“ سے نفرت کی کہانی ابھی بھولی نہیں تھی اب اے آر وائی کی بندش نے میڈیا کی آزادی پر بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان پر قائم کیے گئے غداری اور دہشت گردی کے مقدمات پر پاکستانی میڈیا سکالر تو شاید کچھ کہنے سے قاصر ہیں البتہ مغربی میڈیا اور اقوام متحدہ سمیت امریکہ میں اظہار تشویش ضرور پایا جا رہا ہے۔
میڈیا اور صحافی حضرات سمیت اینکر کی دھڑے بندی نے صحافت کے بھی نئے رنگ متعارف کرا دیئے ہیں۔ہمارے ایک سینئر صحافی کے کالم کا عنوان گزشتہ روز نظروں سے گزرا، معاملات نو ریٹرن کی طرف جا رہے ہیں۔ عوام بجلی کے بلوں، تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے اور کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں اس انداز میں پس رہے ہیں، لاوا پک رہا ہے، بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ایک کروڑ71لاکھ صارفین کو دیا گیا ریلیف کا لالی پاپ بھی کام نہ آ سکے، تمہید ہی میں پٹڑی سے اتر گیا سیاست جس تیزی سے داغدار ہو رہی ہے، جمہوریت سے عوام کی بیزاری بھی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، سیاست دانوں نے اپنی روش نہ چھوڑی ایک دوسرے کو معاف کر کے ایک پیج پر نہ آئے تو مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کے ساتھ سیلاب کی لہروں کی نظر اپنا سب کچھ کرنے والے بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے کروڑوں متاثرین کی آہیں سب کو بہا لے جائیں گی، لمحہ فکریہ ہے سیلاب سے دو ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں،ہزاروں زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، پانچ لاکھ مکانات تباہ ہو چکے ہیں، تین ہزار کلو میٹر سڑکیں سیلاب کی نظر ہو چکی ہیں،چھ لاکھ جانور سیلاب کے پانی میں بہہ چکے ہیں، بلوچستان اور سندھ کے بہت سے علاقوں کا ملک سے رابطہ کٹ چکا ہے،ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے مدد کے طلب گار ہیں، لاکھوں افراد کے وبائی امراض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔پورے پورے خاندان چار پائیاں درختوں سے باندھ کر اس پر بیٹھے ہیں اور کئی کئی دن سے بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی تصویریں رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان حالات میں بھی سیاسی پنڈتوں کے ایک دوسرے پر الزامات ہر فرد کو دُکھی کر رہے ہیں۔
مریم نواز شریف کی شیئر کی ہوئی تصاویر واقعی ہر فرد کو رُلا رہی ہیں لیکن ایک فرد کا کہنا ہے کیا سوشل میڈیا سے تصاویر لے کر ٹویٹر پر جاری کر کے ان بے بس خاندانوں کی مدد ہو جائے گی؟حمزہ شہباز شریف نے لندن سے پنجاب حکومت کو لتاڑا ہے،پرویزالٰہی کو کوسا ہے، سیلاب متاثرین کے لئے کچھ نہیں کر رہے ان کا کہنا حق بجانب، وزیراعظم بھی مشکل حالات میں قطر کا دورہ کر رہے ہیں میڈیا کو ریلیف فنڈ کے کروڑوں کے اشتہار دے کر فرض ادا کر رہے ہیں۔ 13جماعتوں کے نمائندہ اور پی ٹی آئی کے سابقہ وزراء ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرانے اور ایک دوسرے کو اندر کرانے اور نااہل کرانے میں مصروف ہیں، ملک بھر کی عوام سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے خون کے آنسو رو رہے ہیں ملک کا50فیصد سے زائد علاقہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے زندگی بھر کی پونجی سیلاب کی نظر ہو گئی ہے،ان کے لئے25 ہزار کا ریلیف کچھ بھی نہیں ہے،چارووں صوبوں سے آواز اٹھ رہی ہے سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں،حکومت اپوزیشن اختلافات کو ایک ماہ کے لئے پس پشت ڈال کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی جائے، متاثرین سیلاب کے ریلیف کے علاوہ تمام پروگرام کینسل کر دیئے جائیں،حکومت فوری ڈونر کانفرنس کا اعلان کر کے دنیا بھر سے امداد اکٹھی کرنے کا انتظام کرے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کئی ہفتوں سے مصروف عمل الخدمت فاؤنڈیشن سمیت دیگر سماجی تنظیموں کی مدد کے لئے حکومت ہر طرح کی مدد فراہم کرے۔پاکستان کا ہر فرد کچھ نہ کچھ اپنے بھائیوں کے لئے ضرور دے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پوائنٹ سکورنگ کی بجائے عملاً میدان میں آ جائیں اور ریلیف کے کاموں میں لگ جائیں، پاک فوج کے جوانوں کی سیلاب متاثرین کے لئے عملی کوششیں قابل ستائش ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے فوری طور پر ریلیف ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے۔