حضرت داتا گنج بخشؒ کے حیات و آثار

حضرت داتا گنج بخشؒ کے حیات و آثار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیّدالاولیاء حضور داتا گنج بخش سید علی الہجویری قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز اولیاء اللہ کے سر گروہ، مقربینِ حق کے پیشوا،قافلہئ عشق و مستی کے امیر اور اللہ کے مقربین کے امام ہیں۔ان کی ذات راہِ حق کی راہنما، ان کی تعلیمات ہمیشہ کے لیے شریعت و طریقت کا نور، ان کی برکات طالبانِ حق کے لیے ابدی سرمایہ، اِن کا آستان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی تقسیم کا مقام ہے، ان کی توجہات منزلِ دوست کی تابانیاں اور ان کا فیضان ایک ہمہ گیر بارانِ کرم ہے کہ ہمیشہ کے لیے باقی اور دائم ہے۔ سیّدنا علی الہجویری کہ شہرِ لاہور کی عظمتیں ان کے نشانِ قدم سے وابستہ ہیں،وہ اللہ کی نعمتوں کے خزانے لُٹانے والے، محض گنج بخش ہی نہیں بلکہ گنج بخش ہر دو عالم ہیں۔وہ سوزِ حق کا پیکر ہیں،ہر ناقص کے لیے ان کی بارگاہ عطائے کمال ہے اوروہ کاملین کے لیے منزلِ حضور ِدوست کے راہنما ہیں۔

حضور داتا گنج بخش قدس اللہ سرہ العزیز سن 400ہجری میں یعنی اب سے کوئی نو سو نوے برس پہلے غزنی کے ایک قریبی گاؤں ہجویر کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔حضورؒ کا سلسلہئ نسب سات واسطوں سے سیدنا امام حسن مجتبیٰ ؑسے ملتا ہے۔ آپؒ ننھیال اور ددھیال دونوں واسطوں سے سید ہیں۔ داتا حضور ؒکا اصل نام مبارک علی ہے، کنیت ابو الحسن، والدِ گرامی کا نام عثمان ہے۔ قدیم تذکروں میں ہجویری اور جلابی، دونوں لا حقے ملتے ہیں، گنج بخش حضور کا لقب ہے، اس طرح نامِ منور حضرت سیدابو الحسن علی بن عثمان جلابی ہجویری داتا گنج بخش قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیزبنتاہے۔

داتا حضور جس گھرمیں پیدا ہوئے وہ اہلِ تقویٰ اور اہلِ حق کاگھرانہ تھا۔ فضا تمام ترنورو عرفان کی تھی اور گردو پیش اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے وابستگی، شریعت اور طریقت کی اتباع سے آراستہ تھا۔ وہ دورعظیم اہلِ کمال کا تھا جس میں فقیہ، محدث، کاملین،مفسرین، اہلِ زُہدو تقویٰ اورداعیانِ توحید و رسالت بھی تھے، یہ اللہ جلَّ شانہٗ کا احسانِ عظیم تھا کہ داتاحضور کی تمام تر تربیت اسی نورو عرفان کی فضا میں ہوئی۔ بچپن ہی سے حضورؒ کا رحجان عبادات اور تقویٰ کی جانب تھا۔ حضورؒ نے ہوش سنبھالا تو باقاعدہ مکتب میں داخل ہوئے۔

حضورؒ کے ذوق و شوق ہی کا کرشمہ تھا کہ جہاں بھی کسی کامل،عالم، محدث، مفسر، فقیہ یا صاحب کمال کا پتہ چلتا خود اُن کے پاس پہنچتے اور فیضان حاصل کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانِ عظیم کی بدولت ذہن رساتھا، مزاج پاکیزہ اور طبیعت قبولِ انعام کا مرقع تھی۔ اس لئے ہر کہیں سے دولت ِعلم اور نعمت ِ کمال جمع کی اور اہل کمال کی نظر میں ایک ہمہ گیر توقیر حاصل کر لی۔ جب دورِ حاضر کے تمام علوم پردسترس بھی طبیعت کی تشنگی دُور نہ کر سکی تو داتا حضورؒ نے رخت ِسفر باندھا اور دوسرے ممالک کی سیرو سیاحت کو چل نکلے۔ حضور کا یہ سفر ہر اعتبار سے مزید خیرو برکات کے حصول کا سبب ثابت ہوا اور اُن لوگوں سے ملاقاتیں ہونے لگیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کے انوار کا مرقع تھے۔سینے کلام ربانی کے علوم و فیوض سے منور تھے اور طبیعتیں محبت و شفقت کاپیکر تھیں۔اسی اثناء میں حضورؒ کی ملاقات اپنے وقت کے کامل ترین بزرگ حضرت شیخ ابو الفضل ختلی قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز سے ہوئی۔ داتاحضورؒ کے اپنے ارشاد کے مطابق وہا ں سے طبیعت میں عجیب جذب و شوق پیدا ہوا۔ تجلیات حق عطا ہوئیں اور داتا حضور ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہئ طریقت میں داخل ہوئے۔ داتا حضور نے اپنی تصنیفات میں اُس دور کے ممتاز اہلِ معرفت سے کسبِ فیض کے تذکرے کئے ہیں اور ان کے کمالات کا اعتراف کیا ہے۔ ان میں حضرت ابو القاسم قشیریؒ، ابو القاسم گرگانیؒ، ابو سعید ابو الخیرؒ اور ابو العباس احمد اشقانی ؒکا تذکرہ خاص عقیدت و احترام سے کیا ہے۔یہ تمام حضرات عالمِ اسلام کی ممتاز ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اوریہ لوگ شریعت و طریقت،علم ظاہر اور علم باطن میں باکمال تھے، چنانچہ یہ تمام کمالات داتا حضور کی ذات میں جمع ہوئے۔

حضور داتا گنج بخش رحمۃاللہ علیہ کا دور اسلامی تعلیمات کی اشاعت کی تاریخ میں ایک ایسا بابرکت زمانہ محسوس ہوتا ہے، جب اہلِ حق قلب وضمیر میں تودینی تعلیمات پہنچاتے ہی تھے اس کے ساتھ بہترین علمی زندگی گزارنے کی تربیت بھی دیا کرتے تھے۔وہ پورا دور ایسا ہے جب ظاہری یا باطنی علوم کی کوئی تفریق موجود ہی نہیں تھی۔ وہ پاک دل، پاک نگاہ حضرات جب تعلیم و تربیت دیتے تھے تو حقیقتاً اُن کے پیشِ نظر یہ بات ہوتی تھی کہ انہیں مستقبل کے لیے ایسے باکمال، باصلاحیت اور بااخلاص لوگ تیار کرنے ہیں جو تمام علوم میں بھی ممتاز ہوں۔ ان کی ذاتی زندگیاں بھی عملی بلندی کے اعتبار سے مثالی ہوں اور وہ بھی اسی بہترین اسلوب کوآ گے چلا نے کی روش کوقائم رکھیں۔

 شاگردوں کی تعلیم و تربیت میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃاللہ علیہ کی جانب سے مرکزی عنصراللہ تعالیٰ کی سچی اورآخری کتا ب ِحق یعنی قرآن حکیم تھی۔ داتاحضور ؒ قرآن حکیم کے مطالب و معانی اپنے وسعت ِعلم کے ساتھ ایسے دائروں اور مضامین کے ساتھ واضح فرماتے کہ کتاب ِربانی کی ہمہ گیر تعلیمات نہ صرف ان کے شاگردوں کے ذہن نشین ہوتیں بلکہ ان پر مکمل عمل کی برکتوں کے آ ثار بھی اجاگر ہوتے۔وہ اپنی تعلیمات میں دوبنیادی باتیں پیش نظر رکھتے، ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس ارشادات اور اور بزرگانِ دین کی توضیحات سے کلام ِحق کے بیان کو وسیع فرماتے، دوسری یہ کہ ہر ایک تعلیم و تربیت کا مرکزی معیار ِخیر قرآن حکیم ہی سے واضح فرماتے۔

حضرت داتا گنج بخش کا وصال 465ہجری میں ہوا اور حضور نے لاہورمیں خودجو مسجد تعمیر کرائی تھی، اسی کے پہلو میں ان کا مزار تعمیر ہوا۔ ان کی ذات باقی کے ساتھ وابستہ ہو کر باقی ہوئی اور ان کے فیوض و برکات ان کے آستان سے ہر ایک حاضرِ بارگاہ کو تا ابد حاصل ہوتے رہیں گے۔ ان کا آستان وہ مرکز ِفیضِ عام ہے جہاں اپنے دور کے ہر ایک جلیل القدر ولی اللہ اور مقرب ِحق نے حاضریاں دیں اور اللہ تعالیٰ کی لازوال نعمتوں سے مالامال ہوئے۔بر ِصغیر کے عظیم ترین داعی ئاسلام اور قافلہ ئاہلِ کرم کے سالار حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے شہنشاہ ِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ کے حکم سے داتاحضورؒ کے آستان پر اعتکاف کیا اور کونین میں اقلیم عطاونعمت کی وہ شہنشاہی لیکر اُٹھے کہ بے ساختہ ارشاد فرمایا:

گنج بخشِ ہر دو عالم، مظہرِ نُورِ خُدا

ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را راہنما

٭٭٭

 آپ جس گھرمیں پیدا ہوئے وہ اہل ِ تقویٰ وحق کاگھرانہ تھا

  

مزید :

ایڈیشن 1 -