سیّد ابوالحسن علی بن عثمان ؒ

سیّد ابوالحسن علی بن عثمان ؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ لاہور مخدوم امم گورنر اولیاء سلطان الاصفیاء تاجدار معرفت وحقیقت بحر طریقت منبع جودوسخا سیدنا حضرت علی ہجویری داتا فیض عالم ؒ کے قدوم میمنت لزوم سے شرف یاب فرمایا اور آج ایک ہزار گزرنے کے بعد بھی خطہ لاہور اللہ کے اس کامل ولی کی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے اور ان کی آمد پر ان کا شکر گزار ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدی حضور داتا گنج بخش کا مزار پرانوار اور آپ کا فیض عام پوری دنیا میں ہے اور بے شمار لوگوں نے آپ سے فیض لیا اور حق تک رسائی ممکن ہوئی یقینا برصغیر میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا مقدس سہرا ان صوفیائے کاملین کے سر ہے جنہوں نے مصائب و آلام کو نہایت صبر سے برداشت کیا اور اسلام کے پیغام کو چپہ چپہ قریہ قریہ کو چہ کوچہ میں عام کیا اور بے شمار لوگوں کو کلمہ طیبہ پڑھا کر ان کو صاحب ایمان کیا ان مقدس صوفیائے کرام کی صف اؤل میں کامل بزرگ حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی ذات مرکز تجلیات سب سے نمایاں ہے آپ نیکی اور زہد وتقویٰ میں یکتائے زمانہ ہیں اور اپنے نمایاں کارناموں کی بدولت ممتاز ہیں آپ کا اسم گرامی صوفیاء کی صف میں سورج کی طرح چمکتا دمکتا رہے گا آپ کی عظیم ہستی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ اللہ کے محبوب و مقبول بندے ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل سے تاریخ اسلام میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اگر برصغیر میں آپ کو اسلام کا پہلا داعی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا آپ کا اسم گرامی سید علی ہجویری کنیت ابو الحسن اور لقب داتا گنج بخش ہے آپ کا شمار ان بزرگان دین میں سے ہے جنہوں نے اپنی عملی زندگی اور افعال و کردار سے انسانیت کی بجھی ہوئی شمع کو پھر سے جگمگایا اور پانچویں صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی وہ شمع روشن فرمائی جس کی ضیاء باریوں سے زنگ آلود دلوں کو نورایمانی اور عشق رسول ؐ سے منور کر دیا آپ اپنے عہد کے امام یکتا اور اپنے طریق میں یگانہ تھے علم اصول میں امام اور اہل تصوف میں بہو بڑا درجہ رکھتے تھے قطب زماں غریب النواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے بھی حضرت داتا گنج بخش کے مزار پرانوار پر حاضر ہو کر اور آپ کی آخری آرام گاہ کے پاس بیٹھ کر چلا کیا اور انوار الہیہ کی بہاریں لوٹیں اور کامیابیاں حاصل کیں آپ کی قبر انور کے پاس چار دیواری کے اندر آج بھی وہ جگہ محفوظ ہے جہاں پر بیٹھ کر حضرت سلطان الہند خواجہ اجمیری نے چلہ کیا تھا اور اپنے دامن کو انوارات کی دولت سے مالا مال کیا تھا اور آج بھی ان کے عقیدت مند اس جگہ پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں حضور فیض عالم کی ولادت 400 ھ میں غزنی کے قریب ایک گاؤں میں ہوئی ہجویر، جلاب، غزنی کے دوعلاقے ہیں اس لئے داتا صاحب کو جلابی اور ہجویری کہتے ہیں آپ کے والد محترم کا اسم گرامی عثمان بن علی بن عبدالرحمان ہے آپ کا پورا گھرانہ زہد و تقویٰ میں مشہور ہے بچپن ہی سے اللہ نے آپ کو اپنے خصوصی فضل و کرم انعامات اکرام سے نوازا عالم شاب میں ہی آپ تمام علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کر چکے تھیان علوم کے لئے آپ نے اپنے وقت کے مایہ ناز اور بے بدل علمائے کرام اور مشائخ عظام سے اکتساب فیض لیا اور خاص کر اپنے شیخ طریقت حضرت ابو الفضل محمد بن حسن جیسے جلیل القدر بزرگ سے استفادہ کیا اور ان ہی کے دست حق پرست پر بیعت کا شر ف اعظم حاصل کیا آپ نے تصوف و معرفت کے تمام اسرارورموز ان کی صحبت میں رہ کر حاصل کئے اور تصوف و طریقت کی تمام منازل سلوک بھی ان ہی کی صحبت مین رہ کر پورے کئے اور انہوں نے ہی آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا آپ نے اپنی زندگی کا کافی حصہ روحانی تجربات اور تزکیہ نفس کی خاطر سیر و سیاحت میں گزارا دوران سیاحت آپ بغداد شریف، طبرستان، خراسان، ماورا، النہر، شام، ترکی،اور عراق تشریف لے گئے اور وہاں بے شمار اولیاء اور صوفیائے کرام سے علم وروحانی فیوض وبرکات حاصل کئے یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو بڑے بڑے فرماں روانوں کی شمشیریں،ان کا جاہ وجلال،ان کی سطوت وصولت،ان کی ہیبت وجبروت اور ان کا شکوہ وہ دبدبہ نہ دے سکا وہ کام اس مرد حق آگاہ کی حق گوئی،بے باکی، ا س کی اولو لعزمی، اس کی صداقت، اس کے خصائص جمیلہ، اس کے فکر وشعور، اس کے حسن وتدبر، اور اس کی نگاہ معجزہ اثر سے اس طرح سرانجام پذیر ہو اجو انسانی فہم ادراک سے بھی بالاتر ہے آپ کے لاہور آنے سے قبل آپ کے پیر بھائی حضرت میراں حسین زنجانی جو ایک پایہ کے کامل بزرگ تھے یہاں پنجاب میں دین اسلام کی خدمت کر رہے تھے مگرجب حضور داتا گنج بخش لاہورتشریف لائے تو اسی شب شیخ میراں زنجانی نے وصال فرمایا آپ کے مرشد کی نگاہ ولایت کی بصیرت کا یہ کمال تھا کہ ہزاروں میل دور سے نگاہ ولایت مشاہدہ کر رہی ہے وہ عام انسان کی نگاہ نہیں دیکھ سکتی اس لئے تو آپ کے پیر و مرشد نے آپ کو لاہور تشریف لے جانے کا حکم عطا فرمایا کہ اب لاہور کی سرزمین سے ایک اللہ کا ولی کوچ کر رہا ہے ان کی جگہ دوسرے اللہ کے نیک بندے کو یہاں مقیم کر دیا آپ کا حسن انتخاب بھی کمال تھا لاہور میں رہ کر اپنی پر خلوص کوششوں سے آپ نے تعلیمات رسول ؐ کو عام کیا اور اسلامی روح کو زندہ کیا اور بھٹکے ہوئے انسانوں کے دلوں کو عشق مصطفیؐ کی شمع سے منور فرمایا اور ان میں علوم دین حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا اور مساعی کو صرف تعلیم دین تک محدود نہ رکھا بلکہ لوگوں کو ان تعلیمات پر عمل کا راستہ بھی دکھاتے رہے اور خود اپنے ذاتی عمل سے ان کے لئے عمدہ مثالیں بھی قائم کرتے رہے آپ اکثر لاہور میں قیام کے دوران اپنا وقت تصنیف اور تالیف میں گزارتے مگر ایک لمحہ کے لئے بھی اشاعت دین سے غافل نہ ہوئے آپ کی کوششوں سے ہزاروں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام میں داخل ہوئے ان اسلام لانے والوں میں سے لاہور کا ایک راجہ بھی تھا جو آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تصوف اور علوم دینیہ میں آپ کا درجہ بہت بلند ہے بعض مشائخ نے اپنے تذکروں میں آپ کو علوم ظاہرم ظاہر و باطن کا جامع قرار دیا ہے حضرت خواجہ معینؓ الدین اجمیری اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ جیسے اولیائے کرام نے آپ کے مزار سے فیض لیا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا فیض لینے کے بعد یہ شعر آفاق میں مشہور زبان زد عام ہے کہ

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا 

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

چنانچہ اس واقعہ کے بعد آپ کو گنج بخش کے نام سے پکارا گیا جو پوری دنیا میں آپ کا لقب مشہور ہے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کی مشہور کتاب کشف المجعوب میں تصوف کے اسرار ورموز پر آپ نے روشنی ڈالی ہے اور تصوف کے تمام پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے ہندوستان میں اسلامی تصوف پر یہ پہلی کتاب ہے سرزمین لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت مخدوم نے اپنی یہ معرکہ آرا کتاب یہیں تصنیف فرمائی اس بلند پایہ تصنیف کو صوفیہ کرام میں ہمیشہ ایک خاص مقام حاصل رہا ہے یہ آپ کی وہایمان افروز،باطل شکن،روح پرور،صراط مستقیم دکھانے والی کتاب ہے جو دنیائے تصوف ومعرفت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کے مطالعہ سے کئی بھٹکی ہوئی روحیں راہ حقیقت پر گامزن ہو چکی ہیں حضرت مولانا جامیؒ کشف المحجوب کے متعلق یوں رقم طراز ہیں کہ یکے از کتب مشہور کہ دریں فن است ولطائف وحقائق بسیاردرآں کتاب جمع کردہ است اور سب سے بڑھ کر مستند و معتبر قول سلطان المشائخ محبوب الہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا ہے آپ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف المحجوب کے مطالعہ کی برکت سے مل جائے گا اصل عبارت یہ ہے 

کشف المحجوب از تصنیف شیخ علی ہجویری استقدس اللہ روحتہ العزیر۔اگر کسے را پیرنہ باشد چوں ایں کتاب را مطالعہ کند، پیداشود، من ایں کتاب رابہ تمام مطالعہ کردم 

 صاحب سفین الاولیاء شہزادہ دار اشکوہ کے نزدیک تصوف ک موضوع پر کوئی بھی کتاب اس کے پایہ کی نہیں ہے وہ لکھتے ہیں کہ کشف المحجوب مشہور ومعروف ست وہیچ کس را براں سخن نیست ومرشدی است کامل از کتاب تصوف باخوبی آں ز زبان فارسی تصنیف نہ شد۔ہر دور کے محققین،مورخین،مصنفین،اور صوفیاء اصفیاء بہ صمیم قلب کشف المحجوب کی فضیلت و اکملیت کے معترف ہیں سیدنا حضرت داتا صاحب خود اس عدیم النظیر کتاب کے دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب ایسے افراد کے لئے تحریر کی ہے جو حجاب غنیی میں گرفتار ہیں یعنی جن افراد کے قلوب میں حقائق و معارف کی تنویر موجود تو ہو لیکن وہ نور حق سے نور نہیں اس کتاب کے مطالعہ سے ان کے دلوں کا مجلی ہو جانا ممکن ہے اور ایسے لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہو سکتے ہیں لین منکرین حقائق ومعارف یعنی حجاب ذینی سے محجوب دل مشاہدہ حق سے مشرف نہیں ہو سکتے اور ایسے لوگوں کے لئے یہ کتاب ہرگز ہرگز فائدہ مند ثابت نہ ہو گی اس کتاب میں حضور داتا صاحب نے محققانہ طرز تحریر سے اپنے مجاہدات و مکاشفات اور تمام ذاتی تجربات بیان کئے ہیں مباعث سلوک پر بہترین تنقید کی گئی ہے اور یہ کئی ابواب پر مشتمل ہے معرفت کے طلباء کے لئے یہ کتاب مرشد کا درجہ رکھتی ہے فارسی کی تمام کتابوں میں جو شہرت اس کتاب کو ملی ہے وہ کسی کے حصہ میں نہیں آئی یہ فارسی زبان میں لکھی جانے والی سب سے پہلی فقید المثال دستاویز ہے اور تصوف میں ایک کامل رہنما ہے اس کتاب کو ہر دور کے علماء اور صوفیا ء نے تصوف کے موضوع پر ایک بے مثال کتاب قرار دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس شہرہ آفاق کتاب نے ہر دور میں ہزاروں تشنگان علم ومعرفت اور طالبان حق کو فیض یاب کیا ہے اور آج بھی اہل علم اس اپنی علمی و روحانی پیاس بجھا رہے ہیں کشف المعجوب کی عظمت کا اندازہ اس امر سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اولیاء کرام اور صوفیاء نے اپنی تصانیف میں تصوف کا ماخذ قرار دیا ہے اس لئے اس کے متعد داردو تراجم ہوئے اور اب بھی پچیس سے زیادہ تراجم مارکیٹ میں موجود ہیں مخدوم الاولیاء سلطان الاصفیاء سیدنا علی ہجویریؒ جس جگہ اقامت پذیر ہوئے آپ نے وہیں اللہ کا گھر مسجد کی تعمیر کرائی اور خلق خدا کو فیض سے نوازا آپ ایک جگہ یوں فرماتے ہیں کہ مین اپنے مرشد کامل ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی کو وضو کرا رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ جب میں ایک آزاد مرد ہوں تو بھلا مجھے ان پیروں فقیروں کی خدمت میں رہنے اور ان کی غلامی کرنے سے کیا فائدہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا اور میں ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ آپ نے فرمایا اے بیٹا جو بات تیرے دل میں آئی ہے وہ مجھ پر واضح ہو گئی ہے بس اتنی بات جان لے کہ ہر کام ایک ذریعہ یا سبب سے ہوتا ہے اور یہ خدمت یا ملازمت بالاخر بزرگی اور عظمت کا ایک سبب اور ذریعہ بن جاتی ہے۔

٭٭٭

  آپ کے 981ویں سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات26تا26اگست کولاہور میں منائی جارہی ہیں 

مزید :

ایڈیشن 1 -