مخدو م الاولیاء  حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ

 مخدو م الاولیاء  حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا 

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

سر زمین پاکستان با لخصوص اس لحاظ سے بڑی خوش قسمت اور با مراد ہے کہ یہاں اولیائے کرام،بزر گان دین، علماء کرام، دانشوران قوم اور اللہ تبارک تعالی کے مقبول و منظور بندوں کو استراحت نصیب ہوئی جنہوں نے اپنی خانقاہوں، آستانوں اور مراکز میں بیٹھ کر اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور ارشادات کی روشنی میں تبلیغ دین اور خلق خدا کی خدمت و بھلائی کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا اور اس خطہ بینظیر و روشن ضمیر میں نور اسلام کی روشنی سے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی طور پر فیضیاب کیا انہی کے فیوض و بر کات اور افکار و مجاہدات سے آج بھی تشنگان حق، ایمان و یقین کی دولت و سر فرازی سے مستفیض ہو رہے ہیں ان اولیاء اللہ کے مزارات آج بھی مرکز انوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کے اولیاء کرامؒ کی شب و روز محنتوں کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کا فضل ان اولیاء پر یوں بھی ہوا کہ غیر وطن میں جہاں جہاں ان کا قیام ہوا وہ مقام انہی کے نام سے منسوب ہو گیا جیلان سے پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی بغداد پہنچے تو بغداد کو شہرت دوام حاصل ہوئی اور بغداد،بغداد شریف کے نام سے مشہور ہوا۔ خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اجمیر پہنچے تو اجمیر شریف کی پہچان بن گئے، اجودھن سے حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر پاک پتن شریف پہنچے تو اس غیر معروف علاقہ کو شہرت دوام حاصل ہوئی تو یہ علاقہ اجودھن سے پاک پتن شریف کے نام میں تبدیل ہو گیا اور جب ہجویر سے داتا گنج بخش سر کار ؒ لاہور پہنچے تو لاہور کی پہچان بن گئے اور لوگوں کی زبان پر لاہور کا دوسرا نام ”داتا کی نگری“ہو گیا۔ آپؒ کی ابتدائی زندگی کا کچھ حصہ محلہ”جلابی“،اور کچھ عرصہ محلہ ”ہجویر“ میں گزرا۔ 

 آپ ؒ کو خواب میں اپنے مرشد کامل نے حکم دیا کہ اے سید علی ہجویری لاہور آپؒ کے سپرد کیا گیا ہے لہذا فوراً لاہور چلے جاوٗلاہور آمد کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپؒ 431ھ میں غزنی سے لاہور تشریف لائے ان دنوں غزنی میں سلطان مسعود غزنوی حکمران تھاحضرت داتا علی ہجویریؒ نے لاہور تشریف لا کر سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کرائی جب مسجد کی تعمیر سے فراغت پائی تو علماء نے اس مسجد کے قبلے پر اعتراض کیا۔آپؒ نے تمام علماء کو بلایا اور خود امام بن کر اس میں نماز پڑھائی نماز کے بعد تمام حضرات سے فرمایا کہ تم لوگ اس مسجد کے قبلہ پر اعتراض کرتے تھے اب دیکھو کہ قبلہ کس طرف ہے جب انہوں نے نظر اٹھا کردیکھا تو یک بارگی سب کو قبلہ بالمشافہ بچشم ظاہر نظر آیا اس طرح قبلہ کو سیدھے رخ،پر دیکھ کر سب معترضین علماء نادم ہوئے اورپھر آپؒ سے معذرت چاہی،یہ پہلی کرامت تھی جو لاہور میں آپؒ سے ظاہر ہوئی اور اس کرامت نے فوراً ہی سارے شہر میں آپؒ کو مشہور کر دیااور رفتہ رفتہ تمام پاک و ہند میں آپ قطب الاقطاب مشہور ہو گئے حضرت داتا گنج بخش ؒ کا خاندان افغانستان کے شہر غزنی میں اپنی نیکی اور شرافت کی وجہ سے عوام و خواص کی عقیدت کا مرکز تھا آپؒ کی والدہ بڑی عابدہ،زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں آپؒ کے ماموں تاج الاولیاء کے معزز لقب سے مشہور تھے آپؒ کے والد عثمان بن علی بہت نیک اور سادات کرام میں سے تھے ایسے نیک گھرانے میں حضرت داتا گنج بخش ؒ 400 ھ میں پیدا ہوئے آپؒ کا نام گرامی ”علی“ کنیت ”ابوالحسن“ اور لقب ”داتا گنج بخش“ ہے اس لقب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک بار خواجہ غریب نواز ؒ لاہور میں داتا صاحب کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوئے اور ایک حجرے میں 40 دن تک مصروف عبادت رہے اس عرصے میں داتا صاحب نے جو فیوض و برکات کی بارش آپ پر کی اس کا اندازہ غریب نواز ہی لگا سکتے ہیں۔فیوض و برکات کی بارش ہونے پر خواجہ غریب نواز اجمیریؒ نے وجد میں آکر آپ کی شان میں فارسی کا وہ شعر کہا جو اس مضمون کی پیشانی کا جھومر ہے اس سے گنج بخش کا لقب مشہورہوا۔ سوانح نگاروں نے آپؒ کا سلسلہ نصب یوں بیان کیا ہے حضرت علی ہجویری بن عثمان بن علی بن عبد الرحمن بن شجاع بن ابوالحسن علی بن حسن اصغر بن زید بن حضرت امام حسن بن سید نا علی رضی اللہ عنہ۔آپ ؒہاشمی سید اور حسنی ہیں، گو یا حسنی جمال اور حسینی جلال کی رعنائیاں اور دلفریبیاں سمٹ کر آپ کی ذات با برکات میں جمع ہو گئیں غزنی کے دو محلے تھے ایک کانام ”جلاب“ اور دوسرے کا نام ”ہجویر“ تھا۔ ایک محلے میں آپ کے ددھیال اور دوسرے محلے میں آپ کے ننھیال سکونت پذیرتھے۔

آپؒ ایک ایسے درویش تھے جس کے پاس نہ خزانہ تھا نہ لشکر نہ ہی دنیاوی وسائل اورنہ جاہ و حشمت آپ ؒ اکثر اوقات اپنے مصلے پر بیٹھے اپنے معبود بر حق کی یاد میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کے نزول کے باعث آپؒ کو اللہ عزو جل نے وہ شان دلربائی عطا کی کہ جو لوگ آپؒ کے رخ زیبا کو دیکھتے، وہ اپنے آبائی مذہب کوہمیشہ کے لئے ترک کر کے اسلام کی آغوش میں آجا تے،غزنوی حکمرانوں نے ملک فتح کئے، قلعے سرکئے، شاہی محلات پر اپنے پرچم لہرائے لیکن ہجویر سے آئے ہوئے غریب الد یار درویش داتا گنج بخش ؒ نے دلوں کو فتح کیا تعصب اور ہٹ دھرمی کے قلعوں کو گرایا اور جہالت و گمراہی کا ایسا خاتمہ کیاکہ ہر شخص آپ پر سو جان سے قربان ہونے لگا آپؒ نے30سال تک لاہور میں تبلیغ دین کاکام سر انجام دیا۔

مخدوم الاولیاء، حضرت داتا گنج بخش نے 465 ھ صفر المظفر کی 19 تاریخ کووصال فر ما یا اور لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے جہاں ہر سال آپ کاعرس بڑی شان و شوکت سے منا یا جاتا ہے آپ ؒ کے مزار پر ہر زمانہ میں اولیائے کاملین علمائے کرام اوروقت کے بڑے بڑے حکمران حاضر ہو کر آپ ؒکے جود و کرم سے جھولیاں بھرتے رہے ہیں۔

٭٭٭

اولیائے کرامؒ کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے کہ

 ہم مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں 

مزید :

ایڈیشن 1 -