دہشت گردی پر قابو پاناہے
بلوچستان کے ضلع پشین کے مرکزی بازار سرخاب چوک میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کے قریب دھماکے میں دو بچے اور ایک خاتون جاں بحق جبکہ 17 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکے کے لیے بارودی مواد سے بھری ایک موٹرسائیکل کو ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے ذریعے اُڑایا گیا، شرپسندوں کا نشانہ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار تھے۔اِس دھماکے میں تین گاڑیاں،چند موٹرسائیکلیں اور ایک ریڑھی بھی تباہ ہوئی، دھماکے کے فوراً بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے موقع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ لاشوں اور زخمیوں کو جائے حادثہ سے60کلو میٹر دور واقع پشین ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کر دیا گیا،دو پولیس اہلکار سمیت کم از کم سات زخمیوں کی حالت تشویشناک تھی۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے بچوں کی شہادت پر رنج اور غم کا اظہار کیا اور سوگوار خاندانوں سے دِلی تعزیت کا اظہار کیا۔اُنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی دھماکے کی شدید مذمت اور زخمی پولیس اہلکاروں کی جلد صحت یابی کے لیے دُعا کی۔ صدرِ مملکت اور وزیراعظم دونوں نے ہی متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو بہترین طبی دیکھ بھال فراہم کی جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ اُنہیں قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ اِس واقعے پر وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف جنگ جاری رہے گی تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک پُرامن اور محفوظ پاکستان یقینی بنایا جا سکے۔اُنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ قوم اور سکیورٹی فورسز اِس جنگ میں متحد ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی اِسی بات پر زور دیا کہ اِس طرح کے بزدلانہ اقدامات قوم کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے،سکیورٹی فورسز عوامی حمایت کے ساتھ دہشت گردی کے ناسور کو مکمل طور پر ختم کریں گی۔
پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بہت کوششیں کی گئی تھیں،اِس مقصد کے لیے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی آپریشنز کئے گئے،2007ء میں خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن ’راہِ حق‘ کے نام سے شروع کرایا۔ 2009ء میں سوات میں سکیورٹی کی صورتِ حال خراب ہونے کے بعد اُس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں آپریشن راہِ راست کا آغاز ہوا جو کہ تین ماہ تک جاری رہا۔جنوبی وزیرستان میں 2009ء میں آپریشن ’راہِ نجات‘ شروع کیا گیا جبکہ 2012ء میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ’ضربِ عضب‘ کیا گیا۔2016ء میں آپریشن ’رد الفساد‘ کے نام سے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن شروع ہوا جس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلا دیا گیا تھا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی پر کاربند تھا،2014ء میں اے پی ایس پشاور سانحے کے بعد تمام ادارے اور اہل ِ سیاست ایک میز پر بیٹھ گئے، نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا۔اِن تمام اقدامات کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کا جن بہت حد تک بوتل میں بند ہو گیا، واقعات میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔ ایک زمانے میں خیبرپختونخوا کا بہت سا حصہ ”علاقہ غیر“ کہلاتا تھا، وہاں سکیورٹی فورسز اور ریاست کی رٹ قائم نہیں تھی، وہاں دہشت گردوں نے اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں لیکن پھر آپریشنز کے بعد اب یہ علاقے نو گو ایریاز نہیں رہے، ریاست کے اندر موجود ریاستوں نے اپنا وجود کھو دیا۔اب شاذو نادر ہی وہاں پر دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع آتی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اگست 2021ء کے بعد دہشت گردی کی نئی لہر اُٹھی، تحریک طالبان نے یہاں دہشت گرد حملے تیز کر دیے، یہ وہی وقت تھا جب افغانستان میں افغان طالبان نے نظام حکومت سنبھالا تھا اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی میں نرمی آئی تھی۔پاکستان میں ہونے والے واقعات میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے، دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں افغانستان کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں،افغان حکومت کو بار ہا یہ ثبوت پیش بھی کئے جا چکے ہیں،اِس سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے لیکن افغان حکام نے اب تک اِس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی،اُس کی سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہو رہی ہے لیکن وہاں کی حکومت نے اِس طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کے پاس وہ اسلحہ موجود ہے جو امریکی افغانستان سے انخلاء کے وقت افغانستان میں چھوڑ گئے تھے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی رپورٹ کے مطابق 2024ء میں اب تک پاکستان میں 240 دہشت گردانہ حملوں اور کارروائیوں کے نتیجے میں 380 ہلاکتیں اور 220 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔اِن واقعات میں شہریوں، سکیورٹی اہلکاروں اور مجرموں کی ہلاکتیں شامل ہیں۔ رواں سال دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات افغانستان سے جُڑے سرحدی علاقوں یعنی شمال مغربی خیبرپختونخوا اور جنوب مغربی بلوچستان میں ریکارڈ کی گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2024ء میں یکم جنوری سے 31 مئی تک پاک فوج نے بلوچستان میں خوارج کے خلاف مختلف آپریشنوں میں 66 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے، 27 زخمی جبکہ چار کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک بھر میں تشدد اور اموات کی شرح میں دوسری سہ ماہی کے دوران کمی دیکھنے میں آئی اور مجموعی طور پر دہشت گردی میں 12 فی صد کمی ہوئی جس کی بنیادی وجہ پاک فوج کی دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں ہیں۔اِس وقت بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی سرزمین حساس ترین ہے، یہاں بم دھماکوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تخریب کاری کے واقعات دوسرے صوبوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ دہشت گردی کی نئی لہر میں خاص طور پر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پشین(جو کہ بلوچستان کے شمال مغرب میں واقع ہے اور افغانستان کی سرحد کے قریب ہے) میں ہونے والا واقعہ بھی اِسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔اس وقت دہشت گردی کے سدباب کے لیے ریاست ایک بار پھر زیرو ٹالرینس پالیسی پر کاربند ہے، آپریشن عزم استحکام اِسی سلسلے کی کڑی ہے، اب افواجِ پاکستان مربوط اور منظم انداز میں مختلف آپریشنز کر رہی ہے۔ آپریشن عزمِ استحکام کے آغاز پر بھی ملک میں کافی تنقید ہوئی،بعض سیاسی جماعتوں اور قبائلی قائدین نے اس کے خلاف آواز بھی اُٹھائی لیکن ملک میں امن قائم کرنے کے لیے اسے ناگزیر قرار دیا گیا۔اِس بات میں کوئی دو آ راء نہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے وہاں امن و امان قائم ہو نا بہت ضروری ہے، دہشت گردی کے ڈر سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے، سازگار ماحول کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، لہٰذا اگر معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے تو سب کو مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہو گا، تمام اہل ِ سیاست اور اداروں کو متحد ہونا ہو گا، اس معاملے پر کسی قسم کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا میں دہشت گردی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں جانیں گنوائی ہیں، مالی لحاظ سے بھی بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ ملک کے خلاف کی جانے کسی بھی قسم کی کارروائی ناقابل ِ برداشت ہے، کسی کو بھی کسی بھی شکل میں ریاست پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔پاکستان کو ہر صورت اِس ناسور سے جان چھڑانی ہے تاکہ بے خوف و خطر روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھائے جا سکیں۔