اللہ خیر کرے ہم کدھر کو جا رہے ہیں بیٹی ماں کو لوٹنے کے چکر میں ہے۔ بیٹا باپ کو گولی مار دیتا ہے۔ باپ اپنے سارے بچوں کو مار دیتا ہے۔ بھائی بھائی کے ساتھ فراڈ کرنے سے قطعی طور پر احتراز نہیں کرتا، چاچے مامے کے رشتے تو خیر قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ دوست دوست نہ رہا یار یار نہ رہا اے زندگی مجھے تیرا اعتبار نہ رہا۔ کائنات کے استحکام کی بنیاد اعتبار اور اعتماد ہے اور اس وقت یہ دونوں دنیا سے اٹھ چکے ہیں، اسی لئے اخلاقیات نام کی چیز ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی اور ہم سب سربازار سرگرداں وپریشاں سکون، امن، محبت اور بھائی چارے کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔ ہم کدھر جا رہے ہیں شاید ہم ادھر جارہے ہیں،جہاں سے ہم آئے تھے، کیوں آئے تھے اس کا قبر میں اُترنے تک ہم نے کھوج لگانے کی کوشش ہی نہیں کی ہے، بھول گئے تھے کہ ہمارا کوچ ہونے والا ہے، حالانکہ انشاء جی نے بہت پہلے ہم سب کے کانوں میں بآواز بلند کہہ دیا تھا(انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر سے دِل کو لگانا کیا) دِل کوئی سمجھنے والی چیز تھوڑی ہے اس نے تو بے شمار عاشقوں کو دن دیہاڑے مروادیا تھا۔ سیانے لوگ اس دِل کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، وہ اس کو سمجھاتے بجھاتے ہیں اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو اس پر ہو کی ضرب لگاتے ہیں پھر دل کی چیکیں نکل جاتی ہیں اور اس سے شیطان فوری طور پر نو دو گیارہ ہو جاتا ہے، پھر تو اثبات ہی اثبات۔اثبات سے ہی تو بات بنتی ہے اور پھر جہان رنگ وبو میں ایک نئے دور کا آغاز ہو جاتا ہے، ویسے تو تحریروں اور تقریروں میں روز ہی نئے دور کاآغاز ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں دِل کی دنیا اور ہے اور مادی دنیا اور ہے۔ مادہ پرست تو دنگا فساد کریں گے، کیونکہ ان کے ہاں فانی اور باقی کا سرے سے ہی شعور نہیں پایا جاتا ہے، آئیے شعور بیدار کرتے ہیں۔
معروف صحافی محترم مجیب الرحمن شامی کا خیال ہے کہ آج کے افراتفری کے دور میں لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی ضرورت ہے،جوڑ توڑ کی سیاست کرنے والے جمہور کے کندھوں پر سوار ہو کر برسر اقتدار آجاتے ہیں اور پھر مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے اور جو صرف جوڑنے پر لگے رہتے ہیں ان کی لحد کی زیارت بھی دل کی زندگی کا کام کرجاتی ہے اور وہ مر کر بھی نہیں مرتے،جوڑنے کا سب سے موثر اور پائیدار طریقہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف بتایا، بلکہ کر کے دکھایا۔ مدینہ کی سرزمین پر اخوت کی ایسی عمارت تعمیر کر دی، جس کے اندر جو بھی داخل ہوا محفوظ اور مامون ہو گیا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا، ان کی تربیت یافتہ ٹیم عرب اور عجم میں پھیل جاتی ہے اور جگہ جگہ لنگر کے دستر خوان سجا کر کالے گورے چھوٹے بڑے اور عربی عجمی سب کو اکٹھا کر کے ایک جگہ بٹھا دیئے جاتے ہیں۔یہاں سے قافلے نکلتے ہیں اور اخلاص اور محبت کے مقناطیس سے لوگوں کو جوڑتے چلے جاتے ہیں۔ ہاں جہاں کہیں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے وہاں شیطان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجاتا ہے تاہم بہت ہی جلد شیطانی قوتوں کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور توڑ دیتا ہے کوئی خلیل طلسم آذری اور منافرت کے بت توڑ کر ایک دفعہ نئے سرے سے جوڑنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اسی لئے تو تصوف کی دنیا میں بڑے بڑے سلسلے بن گئے ہیں۔
یہی بات آج لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے، لیکن کون سمجھائے ہم سب اس حمام میں ننگے ہیں اور پھر بین الاقوامی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ چکنی چپڑی باتیں اور دلفریب نعرے،ویسے تو اقوام متحدہ کا ایک جامع پروگرام برائے امن و سلامتی اپنی اصل حالت میں موجود ہے،اس کے باوجود امریکہ بہادر جب چاہتا ہے پوری دنیا میں گھوم جاتا ہے اور اپنی من مرضی کرتا ہے اس کے ہاتھوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، اس کے زیر سایہ پلنے والے بھی اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھ کر خوب بدمعاشی کرتے ہیں، ایسے تو نہیں فلسطین، کشمیر، بوسنیا اور دیگر ممالک میں انسانیت کا سرعام قتل کیا جارہا ہے اور جہاں کہیں ان کو اینٹ کا جواب پتھر سے ملنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے وہاں اقوام متحدہ کو امن کا خیال آجاتا ہے اور پھر ایک نئے سرے سے من مانی اگر بصورت دیگر ہوجائے تو ویٹو پاور تو ہمارے پاس ہے یوں ہمارے سامنے کون دم مار سکتا ہے ہاں ہم سب کو جب چاہیں مار سکتے ہیں۔ کمزور اور مجبور ممالک کے پاس چپ وٹنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ان مجبوروں کو جوڑنے والے بابے بھی سو گئے ہیں اور ان کے وارث قصے کہانیوں کے محتاج ہو گئے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ دیگر ممالک کے اندرونی منظر کا ہے۔ استحصالی طبقہ نئے نئے روپ بدل کر سامنے آتا ہے اور پھر چھا جاتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے پیسہ کمایا جاتا ہے۔ طاقت کا بھرپور انداز سے مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اقتدار میں آ کر جملہ وسائل کی کنجیاں اپنے ہاتھ میں رکھ لی جاتی ہیں،ایسے تو نہیں بدظنی، منافرت اور دشمنی کی فضاء قائم ہو گئی، پانی اوپر سے نیچے آتا ہے، مذکورہ خباثتیں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور اخوت کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے اور ہم زمینی خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال سے نبرد آزما ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگوں کو آپس میں جوڑ دیا جائے اور یوں آپس کے خدشات دور ہوجائیں گے۔استحصالی طبقہ خوفزدہ ہو کر اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور کمزور اور متوسط طبقہ توانائی حاصل کرنے میں بتدریج کامیاب ہو جائے گا اور یہ صرف اخوت اور بھائی چارے سے ممکن ہے اور انسانیت کے درمیان تعلقات مبنی براخلاص۔یہی بات سب بڑوں نے کی ہے اور یہی خیر کی بات ہے اور خیر الامور اوسطھا۔ جیسے جیسے خیر کی صدا بلند ہو گی ویسے ویسے مصنوعی ہتھکنڈوں اور نابکاریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سب ذی روح اپنے آپ کو اولاد آدم سمجھیں گے اور قابیل سے نفرت کریں اور قابیل کو بھی اس نفرت کے مضمر اثرات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا اور وہ بھی اپنے کئے پر نادم اور شرمندہ ہو جائے گا۔ بھول کر توبہ کرنے والے کو تو خدا بھی معاف کر دیتا ہے اور خدا کو بہرحال اپنی مخلوق بہت پیاری ہے اور اس کے ساتھ زیادتی کو جب اللہ تعالیٰ محسوس کرتا ہے تو موسمی تغیرات کی تباہ کاریوں کا شور مچ جاتا ہے۔ بارش کی وجہ سے دریا جوش میں آ جاتے ہیں اور سیلاب کے نقصانات پر الحفیظ الامان کی آوازیں اور فطرت انسان کو سبق سکھانے کا تہیہ کر لیتی ہیں۔ ہم سب کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔