” خواجہ رفیق کا قافلہ ‘
اگر ہم یہ زندگی صرف روٹی ، کپڑے اور مکان کی جدوجہد میں گزار دیں تو اسے کون یاد رکھے گا اور خواجہ رفیق شہید کو بھی اسی لئے یاد رکھا جا رہا ہے کہ ان کی زندگی بہترین اصولوں اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کی جدوجہد سے مزین تھی۔ خواجہ رفیق شہید کی جدوجہد اور درس کو وہی سمجھ سکتا ہے جو قومی سلامتی کے لئے آئین اور جمہوریت کی اہمیت کو سمجھتا ہو، ان سے منسوب ہے ، انہوں نے کہا کہ وہ حضرت امام حسین کے رستے پر چل رہے ہیں اور پھر اس رستے پر چلتے ہوئے شہادت اور لاہور میں غازی علم الدین شہید کے بعد سب سے بڑے جنازے کی گواہی آج بھی لاہوریوں سے لی جا سکتی ہے، تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ خواجہ رفیق شہید نے حصول تعلیم کے دوران تحریک آزادی کی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا اور مسلم لیگ کے عظیم مقاصد کیلئے اپنے آپ کووقف کر دیا۔ آپ ایم اے او کالج امرتسر کی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری بھی منتخب ہوئے اور قائداعظم کے کہنے پر خضر حیات کی وزارت کے خلاف احتجاج کے دوران گرفتار ہو کر کئی ماہ تک قید رہے۔ آزادی کے بعد مسلم لیگ پر جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے قبضہ کی مزاحمت کرنے والوں کی صف اول میں شامل تھے اور اسی جدوجہد کیلئے حسین شہید سہروردی کی قیادت میں پاکستان عوامی لیگ تشکیل دی گئی۔ پاکستان کی پہلی حزب اختلاف کے بانیوں میں نوابزادہ نصراللہ، شیخ مجیب الرحمان، مولانا عبدالستار خان نیازی اور خواجہ رفیق نمایاں تھے۔ وہ کبھی بھی ظالم حکمران کے سامنے کبھی نہیں جھکے اور نہ ہی کبھی اصولوں پر سودے بازی کی۔جسے غلط سمجھا، اسے غلط کہا اور پھر اس کے خلاف ڈٹ گئے۔ سید انورقدوائی بیان کرتے ہیں کہ وزارت سے نکلنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جب پہلی بار لاہور آئے تو انہوں نے حبیب جالب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ پروگرام یہ طے پایا کہ حبیب جالب روز انہ دوپہر میں کافی ہاو¿س آیا کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو وہیں ملاقات کریں گے ۔ ریستوران کی مین ٹیبل پر بھٹو صاحب اور بہت سے دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ جالب ان کی فرمائش پر انہیں شعر سنا رہے تھے کہ خواجہ محمد رفیق ریستوران میں داخل ہوئے اور الٹے ہاتھ کی ایک میز پر جہاں معروف انقلابی لیڈر مرحوم لال خان، ابویوسف قاسمی اوردوسرے دوست بیٹھے ہوئے تھے، ان میں جا کر بیٹھ گئے۔ بھٹو صاحب نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے رو¿ف طاہر سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ یہ خواجہ رفیق ہیں توانہوں نے کہا کہ انہیں مجھ سے ملاو¿۔ باقی لوگ تو خاموش رہے لیکن حبیب جالب نے پیچھے کی طرف رخ کرکے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”خواجہ صاحب! بھٹو صاحب آپ کویاد کر رہے ہیں“ یہ جملہ سنتے ہی خواجہ محمد رفیق (جنہیں میں نے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا) نے انتہائی برہمی کے انداز میں بلند آواز کہا ”یہ ایک آمر اور پاکستان کے دشمن کا ساتھی رہا ہے تم اسے شعر سناو¿۔ تمہیں مبارک ہو۔ میں ایسے شخص کی صورت بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔“ اور اٹھ کر ریستوران سے باہر چلے گئے۔ عدیم ہاشمی کا شعر” مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے، میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے“، میرے خیال میں خواجہ رفیق شہید کی فطرت سے زیادہ کسی کی عکاسی نہیں کرتا۔
20دسمبر 72ء خواجہ رفیق شہید کا زندگی کا آخری دن تھا اور وہ دن بھی جدوجہد سے عبارت رہا ، حافظ شفیق الرحمان روایت بیان کرتے ہیں کہ اس سہ پہر ایئر مارشل اصغر خان اور خواجہ رفیق کی قیادت میں لاہور کے سیاسی کارکنوں نے بھٹو حکومت کے فسطائی عزائم، روز افزوں مہنگائی اور شہری حقوق کی پامالی کیخلاف ایک جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ یہ جلوس بھی عجیب و غریب جلوس تھا، مال روڈ پر پولیس ہجوم در ہجوم جمع ہو رہی تھی، وائرلیس سیٹ آنے تھے۔ مجسٹریٹ میگافون کے ذریعے عوام کو منتشر ہونے کا حکم دے رہے تھے پولیس افسران خشونت آلود نگاہوں سے عوام کو گھور رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پنجاب کا گورنر ملک غلام مصطفیٰ کھر نہیں بلکہ جنرل ڈائر ہے۔ یہ لاہور کا مال روڈ نہیں بلکہ امرتسر کاجلیانوالہ باغ ہے اور یہ پولیس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پولیس نہیں بلکہ یونین جیک کو سلیوٹ مارنے والی عہد غلامی کی ”پولیس بہادر“ ہے۔ جلوس روانہ ہواتو اس کے دونوں جانب پولیس کے مسلح دستے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ جلوس الفلاح چوک پہنچ کر منتشر ہوا۔ خواجہ رفیق نے سر پر جناح کیپ اور سوٹ پہن رکھا تھا، ان کے ہاتھ میں ایک سیاہ چھڑی تھی، یہاں کچھ غنڈوں نے خواجہ صاحب پر آوازہ کسا، خواجہ صاحب نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اس روز اسمبلی ہال چوک تک تو میں جلوس میں شامل رہا، یہاں سے مغرب سے پہلے گھر پہنچنے کی جلدی میں میں نے جلو س کو ”الوداع“ کہا۔ مغرب کی نماز کے پندرہ بیس منٹ بعد جب میں گھر سے سودا لینے کیلئے محلے کی دکان پر پہنچا تو دیکھا وہاں ایک بزرگ دکاندار کو یہ بتا رہے ہیں کہ ”اسمبلی ہال کے قریب خواجہ رفیق کو کسی نے گولیوں کا نشانہ بنا دیا ہے، نیز یہ کہ خواجہ رفیق جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔“
اپنوں اور بیگانوں میں، جہاں بھی رسمی باتیں ہوتی ہیں، سب سے پہلے اک ہی سوال پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا یہ حال کیوں ہے اور پاکستان کا آنے والے دنوں میں کیا بنے گا۔ میرا اک ہی جواب ہوتا ہے کہ پاکستان کا برا حال آمروں نے کیا، انہوں نے ملک کے اندر وہ نظام متعارف کروایا جس میں جواب دہی نہیں تھی، آمر خود کو کسی ایوان، کسی عدالت اور کسی بھی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے تھے ، انہوںنے پاکستان کی دولت سے سیاسی حمایت خریدی، خود بھی جی بھر کے لوٹا اور دوسروں کو بھی لوٹنے کا موقع فراہم کیا لیکن اگر ملک میںجمہوریت چلتی ، آئین کی بالادستی قائم رہتی ہے تو پھر پاکستان کا مستقبل بے حد روشن ہے۔ پھر ہر حکمران کو پاکستان او رپاکستانیوں کے لئے کام کرنا ہو گا اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انتخابات میں پاکستان اور پاکستانی انہیں مسترد کر دیں گے۔ خواجہ رفیق شہید کی جدوجہد اسی جمہوریت اور انہی عوام کے لئے تھی۔
سب سے زیادہ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ خواجہ رفیق کی شہادت کے بعدبھی اس خاندان نے پاکستان کے آمریت کی پسندیدہ چراگاہ بننے کے باوجود جہد مسلسل کا رستہ نہیں چھوڑا ، آج کی جمہوریت انہی قربانیوں کا ثمر ہے جوکبھی خواجہ رفیق شہید نے دی تھی، جو ابھی شکنجے میں آنے والے پرویز مشرف کے دور میں خواجہ سعد رفیق نے بدترین تشدد برداشت کر کے دی تھی، اسی آمریت میں خواجہ سعد رفیق نے اپنی والدہ کو ہمیشہ کے لئے کھودیا، وہ اس وقت پابند سلاسل تھے۔
میں آج پھر کہوں گا کہ میں نے خواجہ رفیق شہید کی جدوجہد اور شہادت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر میرے سینئرز کی گواہی آج معتبر ہے ، اور مجھے یقین ہے کہ جب یہ دور گزر جائے گا ،آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ، میری یہ گواہی یقینا معتبر ٹھہرے گی کہ سعد اور سلمان نے خواجہ رفیق شہید کے جانشین ہونے کا حق ادا کر دیا، انہوں نے اپنے والد کی عظیم سیاسی جدوجہد کے قافلے کو رکنے نہیں دیا، تھمنے نہیں نہیں دیا۔ابھی بہت سارے لوگ ، بہت سارے حقائق تسلیم کرنے سے اس لئے بھی انکار ی ہو سکتے ہیں کہ وہ سعد اور سلمان کی جدوجہد کو سیاسی مخالفت کی عینک لگا کے دیکھتے ہیں، وقت کا پہیہ جب یہ عینک اتار دے گا تو یقینی طورپر مشرف دور میں سعد رفیق کی جدوجہدبھی سنہری حروف سے لکھی، پڑھی اور دیکھی جائے گی۔باپ کی شہادت کے وقت سعد رفیق ایک ننھا سا پودا تھا جسے والد کے رگوں میں دوڑنے والے خون اور والدہ کی تربیت نے ایک توانا درخت بنا دیا ہے۔ والد کی سنت کو سینے سے لگاتے ہوئے دونوں بیٹوں نے اس وقت حکومتی جماعت میں ہونے کے باوجود چیلنجز قبول کر رکھے ہیں۔ سعد رفیق پاکستان ریلویز کی بحالی کے لئے د ن رات کام کر رہا ہے اور مجھے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسے سب سے زیادہ محنتی اور غریب دوست وفاقی وزیر کا ایوارڈ دیا جا سکتا ہے اور دوسرے سلمان رفیق نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سخت ترین معیار پر پورا اترتے ہوئے ڈینگی کو قابو کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اک مضبوط اور عوامی پاکستان کی عمارت جب بھی مکمل ہو گی، اس کی بنیادوں میں خواجہ رفیق شہید کے کردار، جدوجہد اور قربانی کا لہو گا ، اس عمارت کی اینٹیں جب بھی گنی جائیں گی، ان میں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی لگائی ہوئی اینٹوں کی اہمیت سے بھی کوئی انکا رنہیں کر سکے گا۔