کیا بغیر داڑھی والے جہنمی ہیں؟
’’ہمارے دوست تارڑ صاحب نے کچھ نام لے کے مثلاً علامہ اقبالؒ اور قائدِاعظم محمد علی جناحؒ اور کچھ مزید نام، جو ماشااللہ ابھی زندہ ہیں، یہ سب نام لے کر پوچھاہے کہ کیا یہ بے داڑھی کے سب لوگ جہنمی ہیں؟ اور پھر انھوں نے ایک مشہور آدمی کا قول پیش کیا ہے کہ’’ تین سوسے زائد تو باطنی سنتیں ہیں، وہ کسی سے پوری نہیں ہوتیں،ان ظاہری سنتوں پرمگر زور دے لیا جاتاہے۔‘‘ اور پھر ایک بڑی شخصیت کا قول بیان فرمایا ہے کہ’’جو سنت شر او ر فساد کی علامت بن کر رہ جائے،اس کا ترک کر دینا اسے اپنانے سے بہترہے۔‘‘ یہ باتیں بھی انھوں نے بڑے اخلاص سے کی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ صرف داڑھی کے ہونے نہ ہونے سے کسی صاحب کی جنت یا جہنم کا فیصلہ کر نا، میرے اور آپ کے، یعنی کسی بھی انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے، کوئی ایسا فیصلہ سناتابھی ہے تو بالکل بے وقوف سمجھ کے اسے چھوڑ دیجئے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ہمارے وزیراعظم صاحب کہیں کہ میں ٹرمپ کو تو ابھی امریکی صدارت سے فارغ کرتا ہوں، کیا واہیات آدمی ہے۔ تو آپ یا ٹرمپ غصہ کریں گے؟ نہیں،بلکہ ہنس دیں گے۔یا جیسے کوئی عدالت کے باہر فیصلہ سنانے لگے۔
حالانکہ فیصلہ سنانا جج کاکام ہے ۔ہاں کچھ چیزوں کے بارے میں ضرور آپ ایک دائرے کے اندر رہ کے کچھ بات کر سکتے ہیں۔ وہ بھی اس لئے کہ ان معاملات میں قانون چونکہ واضح ہوتاہے، اگرچہ پوری طرح وہ بھی وا ضح نہیں ہوتا۔ مثلاًدفعہ تین سو دو کے ملزم پھانسی یا عمر قید کی سزا پاتے ہیں، تو کیا ہر قاتل یہی سزا پائے گا ؟ قرائن و دلائل دیکھ کے یہ فیصلہ کرنا جج کا کام ہے۔ تو سوائے بتادی گئی واضح تعلیمات کے بائی نیم کسی کی جنت و جہنم کو کنفرم کرناقطعاًہمارا کام نہیں ۔ پھر خود کو مسلمان کہنے اورمسلمان رکھنے کی کوشش کرنے والے کواس کا نام لے کے جہنمی یا بالضبط جنتی کہنا کسی عالم کا کام نہیں اور جاہلوں سے ہمیں کوئی تعرض نہیں۔ایسے لوگوں کی وجہ سے ہمیں اسلامی مسلمات سے متنفر بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اچھی پراڈکٹ کا اگر سیلز مین بر ا ہے تو کیا ہم ضد میں جعلی برانڈ خرید لیں گے ؟ خرید بھی لیں تو نقصان کس کا ہو گا؟
پھر بذاتِ خود داڑھی کی کوئی حیثیت نہیں ۔ داڑھی سکھ صاحبان کی بھی ہوتی ہے اور یہودی بھی لمبی داڑھی رکھتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں۔ کئی مذہبوں والے داڑھی رکھتے ہیں۔ البتہ مسلمان آج کل کم داڑھی رکھتے ہیں۔ پھر داڑھی بطور فیشن بھی مارکیٹ میں اِن ہو جاتی ہے، چنانچہ کئی لوگ فیشنی داڑھیاں رکھ لیتے ہیں۔اب بدمعاش بھی رعب و خوف کا تاثر پیدا کرنے کے لئے داڑھی رکھ لیتے ہیں۔ اس میں میڈیا کا بھی دخل ہے۔ فلمی میڈیاکا۔ توبہرحال عمل ہی نہیں ، اس کے پیچھے کارفرما نیت بھی دیکھنا ہوتی ہے۔ تو میری ا س وضاحت سے صرف داڑھی کی ظاہری وجہ سے کسی شخص کے بارے ایسی بڑی یا بری بات کر دینے کا جواز ہی نہیں بچتا۔ہمیں ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے کہ کسی کی جنت یا جہنم کی بات اس کائنات کی اور اس آدمی کی متاعِ حیات کی سب سے الارمنگ بات ہوتی ہے۔سو یونہی یہ بات نہیں کہہ دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ ایک پیغمبر یعنی سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں کافروں کے آباء و اجداد کے متعلق ایساکہنے سے توقف فرمایاتھا۔ اللہ کے حکم سے جنابِ موسیٰؑ فرعون کو دعوت دینے گئے تھے اور فرعون نے چالاکی سے اہل دربار کوبرانگیختہ کردینے والے متوقع جواب والا سوال کر دیاتھا۔ معلوم ہوتا ہے فرعون گمراہ کن حد تک چالاک بھی تھا، وہی جسے آپCunning clever یا پھر ایول جینئس کہتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ۔ کہنے لگا ، موسیٰ یہ بتاؤ ، ہمارے باپ دادا (کی جہنم و جنت)کے بارے کیا کہتے ہو؟ یہ بڑا ٹیکنیکل سوال تھاکہ موسیٰ انھیں جہنمی کہیں گے اور درباری بھڑک اٹھیں گے اور یوں اسے ایک لاجیکل اور لاجواب دعوت کواندھے عوامی جذبات تلے دبانے کا موقع مل جائے گا۔لیکن سیدنا موسیٰ ؑ نے کمال حکمت سے فرمایا: ان سب کا علم کتابِ الٰہی میں مذکور ہے، اور ڈونٹ وری، رب نہ بھولتاہے اور نہ فیصلے میں ٹھوکر کھاتاہے ، یعنی جس کے وہ مستحق ہوں گے وہی پا لیں گے، آئیے ہم مُردوں کے بجائے زندوں کی اور ماضی کے بجائے حال کی بات کریں۔
آج ہمارے ہاں بھی اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ مثلاً دلیل کے بجائے ہم بڑی شخصیات کا عمل بیچ میں لے آتے ہیں۔ بہرحال مسلمانوں کو شخصیت پرستی سے بچایا گیا ہے۔ تو محض داڑھی کی بنا پرکسی کو جنتی یا جہنمی کہنے کی بات ہی غلط اور یہ طرزِ استدلال ہی غلط ۔ البتہ داڑھی کی اسلامی حیثیت کی بات بعد میں ہوگی۔دوسری بات سنت کی کی گئی ۔میں وہ نام نہیں لیتا ، جیسا کہ ہمارے تارڑ صاحب نے بات میں وزن پیدا کرنے کی خاطر کچھ نام لئے۔یقیناًبڑے نام ۔ لیکن میں نہیں لوں گاتاکہ آپ کا دل نہ دکھے ۔ یہی نہیں، ان شخصیات کے بارے خوش گمانی باقی رکھنے کیلئے میں یہاں وہ بات بھی کرتا ہوں جو ہمایوں سعید صاحب نے سیک کانفرنس میں کی تھی کہ عین ممکن ہے ایسی بات ان برگزیدہ شخصیات نے کسی خاص کونٹیکسٹ میں کی ہو۔ ممکن ہے وہاں یہ درست ہی رہی ہو ۔ مگر ان کی بات کا مطلقًا اور عمومی مفہوم لینا توبہت غلط ہو گا۔ غلط کیسے ؟ بات پوری ہونے پریہ آپ خود ہی جان لیں گے ۔
ائمہ سے حسنِ ظن کی ایسی ہی باتوں پر مشتمل ابنِ تیمیہ نے پوری کتاب لکھی اور یہی بات ابوالکلام نے اپنی کتاب تذکرہ میں لکھی۔ سو یہی کہنا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ ہم نیک نیت قائلین کی نیتوں پر شک کریں اور مرحومین کی قبروں پر کوڑے برسائیں۔ البتہ ان کی ذات کے بجائے ان کی بات پر بات کرنی چاہئے۔تو جہاں تک باطنی سنتوں اور ظاہری سنتوں کی تفریق کی بات ہوئی اور کہا گیا کہ باطنی سنتیں صرفِ نظر جبکہ ظاہری سنتیں ہدف ہو گئی ہیں۔ تواولاً بھائی صاحب یہ دنیا ظاہر ہی توہے۔ ہماری روح ظاہری جسم کے اندر ہے ۔ لامحالہ ہم جو دیکھتے ہیں اسی کی زیادہ بات کرتے ہیں۔ یہ توبڑی فطری بات ہے۔ اقبال نے بھی تواسی عالمگیر سچائی کی بات ہی کی تھی
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انسان کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر؟
پھر، ظاہر ہمارے باطن کی بولی ہے۔ایک کتاب میں ، میں نے مختلف عورتوں کے ہاتھ سے بنے سکیچ دیکھے ۔ نیچے کیپشن اسطرح کے تھے: مسلمان عورت ۔ عیسائی عورت ۔ ہندو عورت وغیرہ وغیرہ ۔ تو جناب ان کا ظاہر ہی تو مختلف تھا ورنہ تھیں تو سب عورتیں ہی ۔امین احسن اصلاحی صاحب سے کسی نے پوچھا جناب یہ جو شلوار اوپر رکھتے ہیں یا مثلاًداڑھی ۔ اسی میں توسارا اسلام نہیں ۔کیا زیرک سکالر تھے ۔ مخاطب سے کہا ، تم یوں کرو کہ مٹھی بھر مٹی اٹھا کے ہوا میں اچھال دو۔ اس نے اچھال دی۔ جو ہوا کے ساتھ ایک طرف اڑ کے گر گئی۔پوچھا، کیا معلوم ہوا؟ بتایا، ہوا کا رخ معلوم ہوگیا۔ فرمایا، بالکل یہی بات۔اسلام ہو نہ ہو، ان چیزوں سے آپ کی ذہنیت کا رخ بہرحال معلوم اور متعین ہو جاتا ہے۔ یعنی ظاہرباطن کا کچھ عکاس ہے ضرور ۔
دوسری بات ۔ جس طرح کی یہ بات یا جواب ہے ۔ علمی زبان میں اسے الزامی جواب کہتے ہیں۔ جو مثبت نہیں، منفی جواب ہوتاہے۔ جس میں آپ مخاطب کے سوال کا جواب دینے کے بجائے ، مخاطب پر کوئی الزام نما سوال داغ کے اسے چپ کروا دیتے ہیں۔ مثلاً آپ ایک ڈاکو کو شرم دلانا چاہتے ہیں تو بجائے شرمندہ ہونے کے وہ الٹا آپ کو ڈانٹنے لگتاہے۔’’کیا یہاں باقی سب حاجی ہی ہیں؟‘‘ ’’آپ کے پیٹ میں بڑے مروڑ اٹھ رہے ہیں،میں نے آپ کی جیب تو نہیں کاٹی۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ خدا لگتی کہئے گا، کیا عدالت میں ایک ڈاکو ان دلائل سے اپنا کیس جیت جائے گا؟ اور مولوی صاحب تو کٹ حجت ہی سہی مگر یہ جواب کسی صوفی کو تو نہیں دینا چاہئے تھا نا۔کہ صوفی وہ ہے کہ جس کے دل پر نہ مدح اثر کرے اور نہ مذمت ۔ جبکہ یہ جواب ثابت کرتاہے کہ یہ غصے میں دیا گیا ، کسی کمزوری کو چھپانے کو دیا گیااور کسی کو چپ کروانے کو دیا گیا جواب ہے۔ (جاری ہے )