خواتین پر تشدد کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

خواتین پر تشدد کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟
خواتین پر تشدد کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگرچہ پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں ، خاص طور پر خواتین کی بہتری کے لئے بہت اچھے قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔اگر صرف پنجاب کی بات کی جائے توصورت حال کچھ اس طرح ہے کہ 2014 ء میں اس صوبے میں خواتین پر تشدد کے 6ہزار واقعات رپورٹ ہوئے جو 2017ء میں بڑھ کر8ہزار ہو گئے۔

رپورٹ ہونے والے کیسوں کی تعداد میں اضافہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ خواتین اب تشدد سہنے کی بجائے ایسے واقعات کو رپورٹ کر رہی ہیں۔ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں ایک تشویشناک معاملہ خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے سائبر کرائمز ہیں۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خواتین کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ان کی تصاویر کو فوٹوشاپ کے ذریعے ایک نیا رنگ دیا جاتا ہے ، پھر ایک قابل اعتراض کیپشن کے ساتھ اسے وائرل کر دیاجاتا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے نہ صرف بہت سی لڑکیوں کے رشتے ٹوٹے، بلکہ لڑکیوں، ان کے بھائیوں اور والدین تک کی طرف سے خودکشیوں کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔

دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات صرف ہمارے بڑے شہروں ہی میں رونما نہیں ہو رہے بلکہ اب تو دور دراز کے چھوٹے شہروں میں موجود خواتین کوبھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے، ایسے درجنوں کیس روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتے ہیں ،جہاں لڑکیوں کی تصاویر کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتاہے۔اور انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا ہے۔
ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کو ان کے مخالفین نے سوشل میڈیا پر تضحیک کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف نازیبا جملے استعمال کئے گئے۔ماہرین کا خیال ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی اور معاشی طور پر با اختیار بنایا جائے۔

لیکن یہ بات باعث تشویش ہے کہ عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے جاری ہونے والی عالمی فہرست میں پاکستان کو صنفی مساوات کے لحاظ سے دوسرا بدترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان مملک میں شامل ہے جہاں پر خواتین کی بہت کم تعداد انتظامی عہدوں پر تعینات ہے۔ دنیا بھر کے149 ممالک کے جائزے کی اس رپورٹ میں سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی پاکستان سے آگے ہیں۔خواتین پر تشدد کے خلاف ہر سال دنیا بھر میں ایک مہم چلائی جاتی ہے ،یہ مہم دنیا کے 165 ممالک میں چلائی جاتی ہے ،اس کا مقصد معاشرے میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے آگہی پھیلاناہوتا ہے۔

اس مہم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خواتین کسی بھی قسم کے تشدد کے خلاف آواز بلندکریں ، لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ عورت اور مرد دونوں اکٹھے ہوں گے ،تو ہی خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہو سکے گا۔جب تک معاشرے کے تمام طبقات بشمول سول سوسائٹی، میڈیا، والدین، علمائے کرام اور اساتذہ اس مسئلے کے حل کے لئے اپنا اپنا رول ادا نہیں کرتے ۔اس وقت تک موثر نتائج کا حاصل کیا جانا ممکن نہیں ہے۔
ایک اور مسئلہ خواتین پر تشدد کے قوانین پر عملدرآمد کا بھی ہے جس میں بہتری لائے جانے کی اشد ضرورت ہے، اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود بہت سی خواتین کو یہ معلوم نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور ان حقوق کے تحفظ کے لئے وہ کیا کر سکتی ہیں۔ پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن۔۔۔ (Punjab Commission on the Status of Women (PCSW)) ۔۔۔خواتین پر ہونے والے مختلف نوعیت کے تشدد کے خاتمے کے لئے سرگرم عمل ہے۔

یہ کمیشن سو فیصد درست اعدادوشمار اکٹھے کرتا ہے تاکہ اصل صورت حال بالکل واضح ہو۔ماضی میں مردوں اور عورتوں کے تشدد کے حوالے سے اعدادوشمارا لگ الگ اکٹھے نہیں کئے جاتے تھے ۔ لیکن کمیشن نے پہلی بار دونوں کے الگ الگ اعدادوشمار اکٹھے کرنا شروع کئے ہیں جن سے خواتین پر کیے جانے والے تشددکے واقعات کی حقیقی صورت حال اب واضح ہو رہی ہے۔

خواتین پرتشدد کو روکنے کے لئے پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کی طرف سے ( 1043 )ایک ہیلپ لائن بھی بنائی گئی ہے جس پر ایسی خواتین کی شکایات سنی جاتی ہیں جوکسی ریاستی ادارے یا فورم میں گئیں لیکن ان کی دادرسی نہیں ہوئی۔

یہ ہیلپ لائن 24گھنٹے کام کرتی ہے اورضرورت کے وقت خواتین اس پر مفت کال کر سکتی ہیں۔یہ کالز خاتون آپریٹر اٹھاتی ہیں اور کمیشن ایسی خواتین کی شکایات کو اعلیٰ ترین درجے پر ٹیک اپ کرتا ہے۔
مثلاََ پولیس سے متعلق شکایت کی صورت میں آئی جی آفس یا متعلقہ ڈی پی او کی سطح پر معاملے کو ٹیک اپ کیا جاتا ہے اور وراثتی حقوق کا معاملہ ہو تو بورڈ آف ریونیو کی سطح پر معاملے کو حل کروایا جاتا ہے۔

یہ کمیشن بنیادی طور پر نگرانی کرنے والا ادارہ ہے اور یہ مختلف محکموں کو ان کی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے رابطہ کرتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں محکمہ پولیس کا کردار ہے تو وہ کام کمیشن نہیں کرسکتا، تاہم کمیشن پولیس سے یہ کام بہتر طریقے سے کروانے میں مدد کرتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے ممالک کا جائزہ لیں تو کئی حوالوں سے ہمارے ہاں بنائے گئے قوانین دیگر ممالک سے بہتر ہیں۔جن قوانین میں کوئی سقم باقی ہے، اسے دور کرنے کے لئے بھی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً 2016 ء میں جنسی تشدد (ریپ) کے خلاف ایک اچھا قانون بنا ہے جس کی پذیرائی بھی ہوئی۔ اب اس قانون میں بہتری کی ضرورت ہے کہ ریپ کے مقدمات کو ڈیل کرنے کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں ۔ اسی طرح تیزاب گردی کے خلاف ایک باقاعدہ اور موثر قانون کی ضرورت ہے۔

تیزاب گردی کی کڑی سزائیں تو متعین کی گئی ہیں، لیکن محض سزا اس مسئلے کا حل نہیں۔ تیزاب گردی کی روک تھام کے لئے پیشگی تدابیر کرنا بے حد ضروری ہے۔

دوسری جانب تیزاب گردی کا نشانہ بننے والے شخص کو پہنچنے والے جسمانی و ذہنی نقصان کے ازالے کی اشد ضرورت ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کیلئے خواتین کو طاقت ور اور با اختیار بنانا بے حد ضروری ہے ۔ اسی طرح خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لئے انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔

مزید :

رائے -کالم -