مریم نواز لندن جا سکیں گی؟ فیصلہ عدالت کرے گی
وفاقی کابینہ نے سب کمیٹی کی سفارش منظور کرتے ہوئے مریم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی استدعا مسترد کر دی ہے اور یوں مریم نواز شریف اب از خود ملک سے باہر نہیں جا سکیں گی۔ مریم نواز نے جو ضمانت پر ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ ان کو والد کی تیمارداری کے لئے چھ ہفتوں کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے عدالت سے پاسپورٹ واپس لینے کے لئے بھی رجوع کیا تھا۔ عدالت نے جب ہدایت کی کہ پہلے وزارت داخلہ سے رجوع کیا جائے تو مریم نواز کی طرف سے یہ عذر پیش کیا گیا کہ حکومت کے وزرا پہلے ہی مخالفت کر چکے ہیں۔ بہر حال عدالت عالیہ نے معاملہ وزارت داخلہ کو بھجوا کر سات روز ہیں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے نئے قواعد کے مطابق یہ معاملہ پہلے سب کمیٹی کے سپرد کیا جس کے سربراہ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم ہیں۔ اس کمیٹی نے اپنی سفارشات کابینہ کو بھیج دیں جس کے اجلاس میں ای سی۔ ایل سے نام نہ نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ مریم نواز کی طرف سے نئی درخواست دائر کی گئی عدالت نے اب پاسپورٹ سے متعلق اور ای سی ایل سے نام نکالنے والی درخواست اکھٹی کرکے سننے کا فیصلہ کیا جو 26 دسمبر کو سماعت کے لئے پیش ہو گی۔ مریم نواز کو اجازت نہ دینے کے فیصلے پر وفاقی وزیر فواد حسین چودھری نے تبصرہ کیا کہ یہ اچھا فیصلہ ہے، بلکہ خود نوازشریف کو بھی جانے نہیں دینا چاہئے تھا سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف عدالت سے ضمانت کے بعد علاج کے لئے گئے عدالت نے 8ہفتوں کے اندر واپسی کے لئے کہا تھا لیکن شریف خاندان کے مطابق ابھی ان کے مرض کی تشخیص کا عمل جاری ہے اور جو اہم ترین ٹیسٹ حال میں ہوا اس کا نتیجہ کرسمس کی چھٹیوں کے بعد جنوری میں ملے گا، چنانچہ عدالت کو نئی میڈیکل رپورٹ کے ذریعے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کے چھوٹے بھائی محمد شہباز شریف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ریفرنس میں ضمانت پر ہیں، ان کی طرف سے احتساب عدالت میں استثنیٰ کی درخواست دائر کی جاتی ہے۔ تاہم گزشتہ تاریخ پر فاضل عدالت نے غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کیا اور اب 6 جنوری کی تاریخ کے لئے کارروائی ملتوی کی اور حاضری کے لئے آخری موقع قرار دیا۔ فاضل عدالت کے مطابق ریفرنس میں فرد جرم عائد ہو چکی غیر حاضری کی وجہ سے کارروائی آگے نہیں بڑھ رہی۔ یہ صورت حال سب پر عیاں ہے اب حکومتی موقف یہ ہے کہ نوازشریف اتنے بیمار نہیں تھے اور ان کا علاج ملک میں ممکن ہے۔ لیکن وہ عدالتی رعایت سے مستفید ہوئے، ان کے ساتھ ہی شہباز شریف بھی چلے گئے اور اب یہ دونوں اسحاق ڈار کی طرح واپس نہیں آ رہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) انتقامی کارروائی کا الزم لگا رہی ہے۔ اور یہ محاذ آرائی جاری ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ اگر پارلیمینٹ کو اہمیت دی جائے اور وہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں جمہوری انداز میں تعلقات کار ہوں تو نہ صرف قانون سازی کے عمل میں رکاوٹ نہ ہو اور نہ ہی اس طرح ای سی ایل کا جھگڑا ہو، سیاست دانوں اور سیاسی راہنماؤں کو ٹھنڈے دل سے غور کر کے تعلقات کار بنانا چاہئیں کہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہو اور قومی اسمبلی بھی فعال ہو سکے۔ اسی سے ملک میں بہتری ہو۔ مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا مسئلہ بھی عدالت میں نہ جاتا، بہر حال اب بھی ضرورت ہے کہ یہ حضرات اپنے فیصلے خود کریں۔