شامِ مزاح
موسم تو کمبل میں گھس کر گڑ کے ساتھ مونگ پھلی کھانے اور میڈم نور جہاں کی آواز میں گیت سننے کا تھا…… گاؤں میں تھے تو ایسے موسم میں مونگ پھلی یا پھر گڑ کا حلوہ اور میڈم نور جہاں کے گیت۔ کیا زمانہ تھا…… کہ ایسے موسم میں خوشی کے گیت بھی اداس کر دیتے تھے، مثال کے طور پر:
”مَیں چھج پتا سے ونڈاں
اج قیدی کر لیا ماہی نوں“
اب بتایئے بھلا اس میں اداس ہونے کی کوئی بات ہے؟ اچھا چلو چھوڑو لفظ ”قیدی“ کی وجہ سے ممکن ہے اداسی ہو جاتی ہو…… مگر یہ جو میڈم نے کہا تھا، کبھی گایا تھا:
”چن، چن دے سامنے آ گیا“
آپ بتایئے، اس میں اداس ہونے کی کوئی بات ہے؟ اب بھلا، اس گیت کو سنتے ہی آنکھ میں ستارے امڈ آنے کی کوئی وجہ ہے؟ ممکن ہے اس زمانے میں ہمیں موسیقی اور شاعری سمجھنے کا اتنا شعور نہ ہو، یا پھر ممکن ہے کہ شعور تھا تو صرف ہمیں ہی تھا…… باقی لوگ شاید پاگل تھے، جو بارش کے موسم میں ایسے گیتوں پر کمبل سے اچھل اچھل کر باہر نکلتے تھے اور موسم کا لطف لیتے تھے، ایسے ہی کسی منظر میں داخل ہونا چاہتے تھے، مگر پاکستان رائٹر کونسل کے چیئرمین مرزا یاسین بیگ کی ”شام مزاح“ میں ننکانہ صاحب جانا بھی ضروری تھا…… تقریب کی نظامت میرے ذمے تھی، ویسے بھی ننکانہ صاحب جانے کے لئے میرا دل ہمیشہ آمادہ رہتا ہے، کیونکہ یہاں دو درویش رہتے ہیں۔ ایک تو پنجابی کے بڑے شاعر اور بڑے زمیندار رائے محمد خان ناصر ہیں جو ایک پُر اسرار شخصیت ہیں، بظاہر انہوں نے شاعری کا ”چولا“ پہنا ہوا ہے، مگر ان کے اندر کوئی رولا ہے۔ کہانی کار بھی ہیں، مگر ان کے اندر کی کہانی ان کی لکھی ہوئی کہانیوں سے مختلف ہے۔ دکھنے میں بھی ملنگ لگتے ہیں۔ ایچی سن کالج کے پڑھے ہوئے یہ شخص ہیں بھی ”مولا کے ملنگ“۔ ان کے دعائیہ جملے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ جب محبت بھرے انداز میں کہتے ہیں: جا او افضل: ”مولا تینوں ہور رنگ لاوے“ تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے اردگرد ہزار قسم کے رنگ پھیل گئے ہیں۔ دوسری شخصیت بابا گرو نانک کی ہے۔ مَیں جب بھی بابا کے دربار یا سمادھی کے اندر داخل ہوتا ہوں تو پہلے دروازے کے بائیں طرف دیوار پر لکھے ہوئے ان کے فرمودات، اقوال زریں، شعروں کے ترجمے ضرور پڑھتا ہوں۔ یہ الفاظ مجھے دیر تک روکے رکھتے ہیں۔ ان فرمودات کے ذریعے مَیں بابا کی باطنی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بابا کے یہ فرمودات، اشلوک اپنے اندر خدائے واحد کی حمد کا اظہار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فقیر نے حالت مست میں جو فقرے یا شعر بولے ہیں وہ خدا کے اقرار میں گندھے ہوئے ہیں۔ بابا چونکہ مسلمان صوفیا کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام یا اقوال میں ”مسلمانی“ نظر آتی ہے تو بابا کے اندر ”اسلام“ نظر آتا ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ تدفین کے وقت مسلمانوں اور بابا کے ماننے والوں کے درمیان آخری رسومات کے حوالے سے جھگڑا شروع ہو گیا۔ روایت کے مطابق ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق بابا جی کی تدفین چاہتا تھا…… مگر بابا جی صرف اللہ کو چاہتے تھے…… بابا جی ہمارے پیغمبر کے بھی بہت بڑے ماننے والے تھے۔ انہوں نے ہمارے نبی کریمؐ کے حوالے سے اور ان کی آل کے حوالے سے بھی بزبان شعر اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔
موٹر وے نے لاہور سے ننکانہ صاحب کا سفر بہت آسان کر دیا ہے، ہم چٹکی بجاتے لاہور سے ننکانہ صاحب بائی پاس پر پہنچ گئے۔ مرزا یاسین بیگ پھولوں کے ہار لئے موجود تھے،ہمارا خیال تھا کہ وہ ہمارے لئے رکے ہوئے ہیں، مگر معلوم ہوا وہ تو ملتان سے سجاد جہانیہ، فیاض اعوان اور رانا تصور حسین کے استقبال کے لئے رکے ہوئے ہیں۔ سجاد جہانیہ محبت سے بھری ہوئی شخصیت ہیں۔ بڑے قلم کار تو وہ ہیں ہی، مگر بطور انسان کسی فرشتے سے کم نہیں۔ نہ کسی کی برائی، نہ کسی کی غیبت، نہ ”بڑائی“ دکھانے کا غلبہ، نہ افسری جھاڑنے کا شوق، وہ اپنی گاڑی سے نکلے تو مجھ سمیت مرزا یاسین بیگ، مہر شوکت علی، رائے اظہر من اللہ نے ان پر پھولوں کی بارش کر دی…… موٹر وے پر ان کے اس استقبال کی جھلک لوگوں نے گاڑیوں سے سر نکال نکال کے دیکھی…… ایک دو خواتین نے بھی سجاد جہانیہ پر نگاہ ڈالی…… یہ تو شکر ہے ساتھ بھابھی نہیں تھیں …… ورنہ شام مزاح کے بعد ان کی صبح بخیر بھی دیکھنے والی ہوتی…… یہ ایک دلچسپ منظر تھا…… اور مزید دلچسپ اس وقت ہوا…… جب گل نوخیز اختر کی گاڑی آئی…… گل نوخیز اختر مزاح کی دنیا کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں، جب ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی…… تو مَیں سمجھتا تھا کہ یہ کوئی خاتون ہیں۔ سو ارادہ تھا کہ اللہ نے توفیق دی تو عقد کی کوئی راہ نکالیں گے…… مگر جب ملاقات ہوئی تو ہمارا عشق الٹے منہ نڈھال ہو کر گر پڑا…… کیونکہ جسے ہم محترمہ سمجھتے تھے،……وہ اچھے بھلے مرد نکلے…… گل نوخیز اختر نے بتایا…… کہ مرشد عطاء الحق قاسمی بھی پہنچنے والے ہیں، سو ہمارا یہ بھرپور قافلہ جناب عطاء الحق قاسمی کے استقبال کے لئے رک گیا…… عطاء الحق قاسمی جب تشریف لائے تو موٹر وے نے دیکھا…… کہ عہد کے بڑے مزاح نگار کو پھولوں کی پتیوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ سڑک پر اچھا خاصا ”میلہ“ لگ گیا…… عطاء الحق قاسمی صاحب نے بہت منع کیا…… کہ اب بس کرو، مگر عین اسی وقت بارش کی ہلکی ہلکی بوندوں نے بھی شبنمی قطرے ان کے اوپر وارنے شروع کر دیئے۔ پھر چند لمحوں بعد ہم لوگ رائے محمد خان ناصر کے باغ میں روایتی چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ تا حد نگاہ امرودوں کے پیڑ نظر آ رہے تھے۔ راے محمد خان نے امرودوں کے ڈھیر پر جا بٹھایا…… اور ساتھ ہی اجازت دی کہ اگر آپ میں سے کوئی باغ ”اُجاڑنا“ چاہتا ہے تو پھر اسے اجازت ہے، وہ اپنے ہاتھوں سے امردو توڑ توڑ کر کھا سکتا ہے۔ گل نوخیز اختر کو مَیں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے امرود توڑتے ہوئے دیکھا…… ڈاکٹر اشفاق ورک بھی اس کار خیر میں شریک نظر آئے، البتہ باقی لوگ باغ اجاڑنے سے باز رہے۔
ڈسٹرکٹ بار روم ننکانہ صاحب میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی…… مناسب سے بھی مناسب تعداد میں لوگ موجود تھے، شام مزاح کی صدارت عطاء الحق قاسمی کے ذمہ تھی…… اور در حقیقت یہ تھی بھی شام قاسمی اور لوگوں کی کثیر تعداد عشق قاسمی میں آئی ہوئی تھی، تمام مزاح نگاروں نے اپنا اپنا رنگ جمایا اور خوب جمایا، حیرت انگیز طور پر سامعین اچھے مزاح کے دلدادہ تھے، انہوں نے ایک ایک جملے پر ہال کو تالیوں سے زندہ رکھا…… یہ تقریب تین گھنٹے تک جاری رہی۔ ڈاکٹر اشفاق ورک، حسین احمد شیرازی…… گل نوخیز اختر…… رائے محمد خان ناصر، چودھری انور زاہد، مرزا یاسین بیگ، ناصر محمود ملک…… نے اپنی گفتگو سے لوگوں کو بہت محظوظ کیا…… مگر تقریب کے آخری چالیس سے زائد منٹ تک عطاء الحق قاسمی کی گفتگو گویا…… حاصل تقریب تھی…… عطاء صاحب کو سٹیج پر بلایا گیا تو تقریب کے شرکاء ان کے احترام میں اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ لوگ عطاء صاحب کے احترام میں کھڑے ہو کر ان کی گفتگو سننا چاہتے ہیں۔ احترام کی اس کیفیت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، جس کا منظر مَیں نے عطاء الحق قاسمی کے احترام میں دیکھا…… اس میں کوئی شک نہیں کہ عطاء الحق قاسمی صاحب کی شخصیت لوگوں کے لئے اپنے اندر بہت کشش رکھتی ہے۔ لوگ انہیں پڑھنا ہی نہیں سننا بھی چاہتے ہیں اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عطاء الحق قاسمی کے قلم سے ”امید“ بندھتی ہے۔ لوگ اچھی امیدوں اور ”نویدوں“ کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے خوشیوں کے مواقع پیدا کئے جائیں، لوگ مسکرانا چاہتے ہیں۔ مزاح نگاروں کی پذیرائی دیکھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو وہ ”شام مزاح“ جیسی تقریبات کا اہتمام ہر ایک ضلع میں کرے۔ ان تقریبات کے ذریعے لوگوں کے لئے ہنسنے، مسکرانے کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں اور حکومتی سطح پر ایسی تقریبات کا اہتمام اب بہت ضروری ہو گیا ہے…… اگر حکومت صرف ”رولانے“ پر یقین رکھتی ہے تو پھر ہمارے مرزا یاسین بیگ تو بہر حال اس کام کو ضرور آگے بڑھائیں۔