ہائی برڈ وار فیئر سے کیا مراد ہے؟
جب گزشتہ برس ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر نے پہلی بار لفظ ہائی برڈ وار فیئر (Hybrid Warfare) استعمال کیا تھا تو میں نے اس نسبتاً نئی اصطلاح کا مفہوم واضح کرنے کے لئے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ کچھ عرصے سے ٹیوٹا کاروں کی بعض برانڈ کی ڈگی والے حصے پر جو ایک خوبصورت سا 2"x1"کا دھاتی سٹکر نظر آ رہا ہے اس میں Hybrid لکھا ہوتا ہے۔ میں نے جب اس کا مفہوم جاننے کی کوشش کی تو ایک جاننے والے نے بتایا کہ جس گاڑی پر یہ سٹکر لگا ہو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ کار پٹرول پر بھی چل سکتی ہے اور بیٹری پر بھی۔ اگر اثنائے سفر پٹرول ختم ہو جائے تو ایک محدود فاصلے تک یہ گاڑی بجلی (بیٹری) سے بھی چلائی جا سکتی ہے۔ اس کی بیٹری خود بخود وقفے وقفے سے چارج ہوتی رہتی ہے یا حسبِ ضرورت چارج کی جا سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پٹرول کی کھپت کم ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں پٹرول کا خرچ کم ہو جاتا ہے۔ جب اس لفظ کی مزید ”تفتیش“ کی گئی تو معلوم ہوا کہ آنے والے برسوں میں ہائی برڈ گاڑیوں میں دو فیول ٹینک ہوں گے۔ ایک میں پٹرول اور دوسرے میں ڈیزل بھرا جا سکے گا۔ گاڑی کا انجن ایسا ہو گا جو پٹرول، ڈیزل اور بیٹری سے آپریٹ ہو سکے گا بلکہ مستقبل میں اگر کوئی مزید ایسا فیول دریافت ہو گیا جو بجلی (بیٹری) کا بدل ہو سکے تو وہ بھی ان ہائی برڈ کاروں میں قابلِ استعمال ہو گا۔ ان مزید فیول برانڈز میں سی این جی، ایل این جی اور شیل گیس وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اس ملے جلے فیول کے ملغوبے کو اگر جنگ و جدل کے روپ بہروپ میں دیکھا جائے تو اس سے مراد ایک ایسا جامع طرز کا طریقہ ء جنگ کا ہے جس کی تاثیر روائتی طریقہ ء جنگ سے کئی گنا زیادہ ہو گی۔ عسکری اصطلاح میں ”ہائی برڈ وار فیئر“ ایک ایسی فوجی حکمت عملی (سٹرٹیجی) کا نام ہے جو روائتی اور غیر روائتی طریقہ ہائے جنگ کو آپس میں ”شیر و شکر“ کرتی ہے۔ جن قارئین کو دفاعی امور سے کوئی دلچسپی ہے تو ان کو اس طرح کی خشک اور مشکل پروفیشنل اصطلاحات کی تلخ گولی نگلنی پڑے گی۔ یہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اول اول یہ ایکسرسائز شائد مشکل محسوس ہو لیکن ہر مشکل کے بعد آسانی والی بات یاد رکھنی چاہیے۔ کوئی لفظ یا اصطلاح بجائے خود مشکل یا آسان نہیں ہوتی۔ جو چیز ہماری سمجھ میں آسانی سے آ جائے اسے آسان اور سلیس کہہ دیا جاتا ہے اور جس کی تفہیم (Understanding) کچھ مشکل ہو اس کو مشکل سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایک اور بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کثرتِ استعمال سے نامانوس اور اجنبی معلوم ہونے والے الفاظ و مرکبات بھی آسان معلوم ہونے لگتے ہیں …… یہ ”ہائی برڈ وارفیئر“ کی اصطلاح بھی ان میں سے ایک ہے۔ فوجی برادری کے لئے بھی یہ اور اس قسم کی بے شمار ایسی اصطلاحیں اب بہت آسان لگنے لگی ہیں جو اول اول نامانوس اور ناقابلِ فہم لگتی تھیں …
…
اسی طرح کی ایک اور اصطلاح کائی نیٹک (Kinetic) بھی ہے۔ اس کا لغوی مفہوم تو ’متحرک‘ یا ’حرکتی‘ ہے لیکن کائی نیٹک آپریشنوں سے وہ آپریشن مراد لئے جاتے ہیں جو متحرک تو ہوتے ہیں لیکن ان میں جسم و جان کا فوری نقصان بھی شامل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اگر ہلکے یا بھاری ہتھیاروں کا استعمال ہو گا تو ان سے ہلاکتیں بھی ہوں گی اور جراحتیں بھی۔ اس تصادم میں طرفین مرتے بھی ہیں اور زخمی بھی ہوتے ہیں۔ لہو بہتا ہے، اعضا کٹتے ہیں اور یوں لڑنے والے افراد مجروح، معذور اور اپاہج ہو جاتے ہیں۔ ان سب کارروائیوں کو کائی نیٹک آپریشن کہا جائے گا۔ لیکن ایسے آپریشن جن میں کوئی ہلکا یا بھاری اسلحہ استعمال نہ کیا جائے، لوگوں کا خون بھی نہ بہے لیکن اموات واقع ہو جائیں، لڑنے والے جسمانی طور پر تو فِٹ (Fit) نظر آئیں لیکن اعضائے جسم کام کرنا چھوڑ دیں، عمل اور ردعمل کا سلسلہ ناکارہ ہونے لگے تو ایسے آپریشنوں کو ”نان کائی نیٹک“ آپریشنز کا نام دیا جائے گا۔ ایسے آپریشنوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بقول شخصے ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آ جاتا ہے۔ ان آپریشنوں میں حملہ آور ایسے ایسے غیر محسوس اور نفسیاتی ہتھیار استعمال کرتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آتے لیکن ان کے نتائج کائی نیٹک آپریشنوں کے برابر ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان سے کئی گنا زیادہ کارگر اور موثر ہوتے ہیں …… اسی طریقہء جنگ کو ”ہائی برڈ وار فیئر“ کا نام دیا جاتا ہے۔
اس وارفیئر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ منگولوں کے قلہ میناروں کی حقیقت سے لے کر ’مولا جٹ‘ کی بڑھکوں تک یہ طریقہ ء جنگ،جنگوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اور جوں جوں دن گزر رہے ہیں، کائی نیٹک وار فیئر زیادہ سنگدل اور بے رحم ہونے لگا ہے اور ہائی برڈ وارفیئر اس کے مقابلے میں زیادہ موثر اور زیادہ کارگر ہو کر سامنے آنے لگا ہے۔ آج کا دشمن دونوں طرح کے طریقے ملا جلا کر استعمال کرتا ہے…… روائتی بھی اور غیر روائتی بھی…… ان غیر روائتی طریقوں میں اقتصادی طریقہ ء جنگ، سیاسی اور سفارتی طریقہ ء جنگ، سائبر و انفرمیشن طریقہ ء جنگ اور نیم روائتی طریقہ ء جنگ شامل ہیں …… ہم سطورِ ذیل میں ان کو ایک ایک کرکے ذرا مزید تفصیل سے بیان کرنا چاہیں گے:
1۔اقتصادی طریقہ ء جنگ: اس اکنامک وارفیئر کے اثرات ہم آج سے 30سال پہلے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے اور سکڑ کر صرف رشین فیڈریشن رہ جانے کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ انڈیا اگر رقبے، آبادی اور وسائل کے حوالے سے پاکستان سے 6گنا بڑا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس پاکستان سے 6گنا زیادہ پیسہ ہے۔ پاکستان اگر انڈیا کے ساتھ برابری کی دوڑ میں شریک نہ بھی ہو تو پھر بھی اسے ایک حد تک اقتصادی ڈیٹرنس تو قائم رکھنا ہی پڑے گا۔پاکستان کو اپنی بقاء کے لئے اگر ایک ڈالر درکار ہے تو انڈیا کو 6ڈالروں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن اگر انڈیا کے پاس 60ڈالروں کا اقتصادی اثاثہ موجود ہو تو پاکستان کو کم سے کم 10ڈالروں کا بندوبست تو کرنا پڑے گا جو آج کل پاکستان کی ٹکسال میں نہیں ہیں …… یہی وہ اقتصادی عدم مساوات ہے جو پاکستان کو IMF وغیرہ کے دروازے پر لے جاتی ہے اور دوستوں سے بھی التماس کرنی پڑتی ہے کہ وہ مدد کو آئیں۔ اگر پاکستان اپنی اقتصادیات کو انڈیا کے برابر لے آئے تو ایسا کرنا کوئی ناممکن تو نہیں لیکن اس کے لئے ترقی یافتہ ملکوں کی تقلید کرنی پڑتی ہے……آج کے پاکستان کو یہی چیلنج درپیش ہے۔
2۔ سیاسی اور سفارتی طریقہ ء جنگ: ستمبر 2016ء میں اوڑی پر کشمیری مجاہدین کا حملہ ہو یا پلواما پر کشمیری حریت پسندوں کا حملہ، انڈیا نے ان حملوں کو نہ صرف یہ کہ اندرونی طور پر اپنی پبلک کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں استعمال کیا بلکہ بیرونی دنیا کو بھی اس بات کا قائل کر لیاکہ یہ حملے پاکستان نے کروائے ہیں۔ اگر ہم نے اوڑی اور پلواما کے حملوں کا ویسا ہی توڑ کیا ہوتا جیساکہ 5اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا آئینی سٹیٹس ختم کرنے پر کیا تو بین الاقوامی برادری انڈیا کو اسی طرح ذمہ دار گردانتی جس طرح وہ آج کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور شہریت ایکٹ کی منظوری کے بعد انڈیا کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہروں کے ردعمل کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔
3۔سائبر و انفرمیشن وار فیئر: ہائی برڈ وار فیئر کا یہ حصہ (Segment) سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس میں دو لفظ سائبر (Cyber) اور انفرمیشن غور طلب ہیں۔ سائبر کا لغوی معنی جو انگلش اردو لغاتوں میں لکھا ملتا ہے وہ ”خیالی“…… اور ”کمپیوٹر سے متعلق“ ہے…… لیکن سائبر کا تعلق اگرچہ کمپیوٹر سے ہے لیکن یہ خیالی ہرگز نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ انفرمیشن کا حال بھی یہی ہے۔ ہم معلومات و اطلاعات کے ”متعدی دور“ میں جی رہے ہیں۔ انفرمیشن کے اس دور نے ملکوں اور ان میں زندگی بسر کرنے والے بعض گروپوں کی طرف سے لانچ کی گئی جنگ و جدال اور سیکیورٹی کے تناظر کو از حد متاثر کیا ہے۔ ذرا اس امر پر بھی غور کیجئے کہ اگرچہ ممالک اور ریاستیں سیاسی وحدتوں کی صورت میں موجود ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر قائم و دائم ہیں لیکن ٹیکنالوجی کے فروغ نے اطلاعات و معلومات کو ان زمینی وحدتوں سے اوپر اٹھا کر فضا اور خلا کی لا محدود وسعتوں میں بکھیر دیا ہے۔ ہم آج کل جو کچھ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ اور سن رہے ہیں وہ چند برس پہلے تک کہاں تھا۔ آج آپ کسی بھی انفرمیشن کو ہوا کے دوش پر سوار کر دیں تو وہ آن کی آن میں مشرق و مغرب کی طنابیں کھینچ کر کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کو کون بھیج رہا ہے اور اگر کافی تگ و دو اور ریاضت کے بعد یہ سراغ لگا بھی لیا جائے کہ اسے کون ہوا کے دوش پر ارسال کر رہا ہے تو تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ملکوں کے درمیان زمینی سرحدیں تو موجود رہتی ہیں لیکن سائبر سرحدیں موجود ہونے کے باوجود نظر نہیں آتیں۔ انڈیا اور پاکستان دو زمینی حقیقتیں ہیں۔ لیکن ان میں انفرمیشن کا باہمی بہاؤ اگرچہ نظروں سے اوجھل رہتا ہے لیکن سائبر سپیس میں موجود ہوتا ہے جسے دونوں ملکوں کے باسی بیک وقت دیکھ، پڑھ اور سن سکتے ہیں۔ یہ صورت حال بہت پیچیدہ ہے اور اس کے اثرات روائتی جنگ سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ جنگ سائبر سپیس (Cyber Space) میں لڑی جا رہی ہے اور اس طریقہ ء جنگ کے لڑنے کی چالیں (Tactics)بڑی مختلف اور نرالی ہیں۔مثلاً سائبر جاسوسی، ویب سائٹس کی چوریاں چکاریاں، سائبر ڈاٹا کو اکٹھا کرنا، جنگ لڑنے کے مختلف ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی معلومات کو اچک لینا، ساز و سامانِ جنگ مینوفیکچر کرنے اور بنانے والی فرموں اور کارخانوں کی ویب سائٹس (Web Sites) میں خلل ڈالنا، ان کو درہم برہم کر دینا، کسی نازک اور اہم (Critical) انفراسٹرکچر پر حملہ کر دینا، حکومت کے کسی کمپیوٹر سسٹم کو ہیک (Hack) کر لینا یا اس میں خلل اندازی (Disruption) وغیرہ سب سائبر و انفرمیشن وار فیئر کی چند مثالیں کہی جا سکتی ہیں۔
یہ ”انفرمیشن وار فیئر“ پاکستان کے لئے ایک نیا میدانِ جنگ ہے اور اس میدان جنگ کے اہداف جو زیرِ خطر(Vulnerable) ہیں ان میں پاکستان کی سالمیت، علاقائی سلامتی، ثقافتی شناخت، نظریاتی وحدت، نسلی انسلاک، جوہری اثاثے اور اس کی مسلح افواج ہیں جن میں اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی شامل ہیں، پیش پیش ہیں۔
4۔نیم روائتی طریقہ ء جنگ: یہ نیا طریقہء جنگ بہت موثر ہے۔ 2001ء کے بعد جب سے امریکہ اور انڈیا ہمارے ہمسائے افغانستان میں آکر بیٹھ گئے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) وغیرہ کے نام سے جو کارروائیاں ماضی میں ہوتی رہی ہیں وہ سب نیم روائتی یا ”سب کنونشنل وار فیئر“ کی ذیل میں آتی ہیں۔کلبھوشن کا کیس ہو کہ بلوچستان میں شیعہ (ہزارہ) برادری پر حملے ہوں یہ تمام کے تمام پاکستان کو فرقہ وارانہ جنگ و جدل میں دھکیلنے کے مظاہرات ہی تو ہیں۔
القصہ ہائی برڈ وار فیئر ایک زندہ و پائندہ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ ہر پاکستانی شہری کو اس کا ادراک کرنا چاہیے۔ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ موضوع ہے لیکن اس کی تفصیلات جاننا ہم سب کا فریضہ ہے۔ انڈیا بڑے منظم طریقے سے یہ کھیل، کھیل رہا ہے اس لئے ہمارے معاشرے کے ہر شعبے کو اس کا ادراک کرنا چاہیے۔ دشمن، پاکستان کی سویلین اور عسکری لیڈرشپ کے خلاف پراپیگنڈے کے جو حربے استعمال کر رہا ہے، وہ آج ہمارے الیکٹرانک،سوشل اور پرنٹ میڈیا پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان سب امور کا تجزیہ کرنا اور اس موضوع پر کالم نگاری کرنا ایک اہم ترین چیلنج ہے۔