سپریم کورٹ میں زیرا التواء مقدمات کی تعد لگ بھگ 42000،ایک سال میں 8ہزار سے زائد کیسز کو نمٹایا گیا
اسلا م آ با د (آن لائن)نظام عدل میں نمایاں اصلاحات لانیوالے پاکستان کے 26 ویں چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھو سہ 20 دسمبر 2019 کو اپنی مد ت ملاز مت پوری کر کے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ان کی جگہ نئے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے،جو 2فروری 2022 تک منصف اعلیٰ کے اس عہد ے پر برا جمان رہیں گے۔ آن لائن کو دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت زیر التوء مقدمات کی تعداد 42000کے لگ بھگ ہے جبکہ گزشتہ ایک سال میں 8000سے زائد مقدمات کو نمٹایا گیا۔سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے اپنی 337 دن کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کے دورانیہ میں پانا مہ سکینڈل، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع،جج ارشد ملک ویڈیوسکینڈل،دہشت گردی کی تعریف،آسیہ مسیح توہین رسالت،آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل، جھوٹے گواہوں کیخلاف کارروا ئیوں کے اجراسمیت متعدد اہم مقدمات پر فیصلے جاری کئے۔ڈکٹیٹر مشرف کوبھی انہی کے دورانیہ میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ خصوصی عدالت نے 5مرتبہ سزائے موت جبکہ سزا سے قبل فوت ہوجانے کے صورت میں ڈی چوک لا کر تین دن لٹکانے جیسا جرت مندانہ فیصلہ سنایا۔ آصف سعید خان کھوسہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کے دورانیہ میں ماضی کے بر عکس عدالتی تحمل کا جو مظاہرہ کیا گیا اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ان 337 دنوں میں ماضی کی طرح ازخود نوٹس لینے سے پرہیز کیا گیا،نظام عدل میں اصلا حات کیلئے ماڈل کورٹس کے قیام سمیت ویڈیو لنک ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی جس سے دیکھتے ہی دیکھتے پچیس سال پرانے فوجداری مقد ما ت نمٹ گئے،دو،تین مقدمات میں سزائے موت کے ایسے ملزمان کو بھی بریت کا پروانہ ملا جن کی طبعی موت واقع ہوچکی تھی۔سپریم کورٹ کی تمام رجسٹریوں میں ہر ماہ کے دوران تقریباًً 600 نئے مقدمات کا اندراج ہوتا ہے اس وقت عدالت عظمیٰ میں انسانی حقوق کے 149پرا نے مقدمات زیر التواء ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ آخری میٹنگ میں بھی ادارے اور ملک کیلئے بے قرار نظر آئے، انہوں مختلف ایشوز پر پر نہ صرف اظہار خیال کیا بلکہ ماحول کو بہتر بنانے کیلئے ممکنہ تجاویز بھی میڈیا کے سامنے رکھیں،ان کی ریٹائر منٹ کے بعد منصف اعلیٰ کے اس عہدے پر براجمان نئے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کو نئے بے شمار چیلنجز کیساتھ ساتھ جن پرانے چیلنجز سے نمٹنا ہے ان میں تین اہم کیسز سرفہرست ہیں۔ اس دورانیہ میں سابق صدر مشرف کو سنائی گئی سزا پر عملدرآمد کرانے، آرمی چیفس کی مدت تعیناتی میں اضافے کو لگائی گئی بر یک پر وفاق یا دیگر فریقین کی طرف سے دائر کردہ ممکنہ نظر ثانی اپیلوں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر کردہ حکومتی ریفرنس پر جاری خصو صی بینچ کی سماعتوں کو سمیٹنا بھی شامل ہے۔
سپریم کورٹ مقدمات