چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے:وزیر اعلیٰ سندھ
کراچی(اسٹاف رپورٹر)وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کا پہلا اور اہم اصول اتحاد تھا اور آج داخلی اور بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ بات انہوں نے بروز بدھ قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کی مناسبت سے مزار قائد پر پھولوں کی چادر چڑھائے اور فاتحہ خوانی کے فورا بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ داخلی اور خارجی امور کو حل کرنے کے لئے اتحاد کی بہت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مشرقی سرحد پر ہندوستان اپنی مسلمان آبادی کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے اور اس نے اپنے مسلمان شہریوں کو اپنے وطن سے محروم کرنے کے لئے متنازعہ شہریت کا بل پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف دن بدن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اندرونی طور پر پاکستان کو معیشت، غربت، سیاسی بدامنی اور قومی اتحاد کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ایک خودمختار قوم کی حیثیت سے ابھرنے کے لئے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد قائم کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف اور متنازعہ ہندوستانی شہریت بل کے خلاف ایک قرار داد منظور کی ہے اور وفاقی حکومت سے بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو بے نقاب کرنے کے لئے آواز اٹھانے کی درخواست کی ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ ایک سال بعد سی سی آئی کا اجلاس ہوا، مگر سندھ کے تقریبا تمام امور جیسے انہوں نے اجلاس میں اٹھایا تھا انہیں قبول کرلیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ باقاعدگی سے سی سی آئی کے اجلاس منعقد کرتے رہیں تاکہ بین الصوبائی اور صوبائی وفاقی حکومت کے تمام مستقل مسائل کو حل کیا جاسکے۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے سی سی آئی اجلاس میں جن امور کو اٹھایا، ان میں پانی کے معاہدے پر عملدرآمد، ایف بی آر کے ذریعہ 7 ارب روپے کی کٹوتی کی وصولی، صحت سے متعلق عمودی پروگراموں کے لئے فنڈز کا اجرا، چشمہ جھلم لنک پر بجلی گھر کی تنصیب کے لئے جاری این او سی کی معطلی اور رینیوئیبل انرجی پالیسی شامل تھے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ حکومت سندھ کے نقطہ نظر کو تسلیم کیا گیا۔وزیراعلی سندھ نے میڈیا کو بتایا کہ سی سی آئی اجلاس سے قبل انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں بتایا کہ وزیراعلی ہونے کے ناطے یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ جب بھی کراچی کا دورہ کریں تو میں آپ [وزیر اعظم] کا استقبال کروں لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ مجھے مدعو نہیں کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب وزیر اعظم سیکریٹریٹ مجھے وزیر اعظم کے کراچی دورے کے بارے میں بتایا تھا تو انہوں نے بطور وزیراعلی ایئرپورٹ اور پھر کامرس کالج میں ان کا استقبال کیا تھا۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اب وہ مجھے مطلع نہیں کرتے ہیں تو میں وزیر اعظم کا استقبال کیسے کروں گا۔ایک سوال کے جواب میں سید مراد علی شاہ نے کہا کہ انہیں ابھی گورنر سندھ سے ہی معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم 27 دسمبر کو کراچی کا دورہ کر رہے ہیں، لیکن میں ان کا استقبال کرنے کے لئے شہر میں موجود نہیں ہوں گا کیونکہ میں پنڈی جا رہا ہوں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میں شرکت کرونگا۔ کرسمس کے موقع پر وزیراعلی سندھ نے پاکستان کی مسیحی برادری کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آپ کا گھر ہے اور انہوں نے ان سے ملک کی خوشحالی اور اتحاد کیلئے دعا کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتی برادری مساوی حقوق سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور وہ اس ملک کی خوبصورتی ہیں۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ میں نے گورنر سندھ سے درخواست کی ہے کہ شہر میں وزیراعظم کا وہ اجلاس جس میں اگر میری موجودگی ضروری ہے اسے ملتوی کیا جائے اور اس اجلاس کو 27 دسمبر کے فورا بعد کسی بھی دن بلایا جا سکتا ہے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کو پہلے ہی سی پیک منصوبوں میں شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم سے کے سی آر کو ترجیحی منصوبہ بنانے کی درخواست کی ہے تاکہ جلد سے جلد اس پر کام شروع کیا جاسکے۔ایک سوال کے جواب میں سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کی فہرست سے کچھ نام خارج کردیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زیادہ تر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے، لہذا میں تجویز دوں گا کہ ایک تازہ سروے کر کے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے مزید لوگوں کو اس فہرست میں شامل کیا جائے۔قبل ازیں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے مزار قائد پر پھولوں کی چادر چڑھائی، فاتحہ خوانی کی اور مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثر قلمبند کیا۔