اعضا کی پیوندکاری کے لیے ادارہ قائم کیا جائے گا،پروفیسر سعید اختر
کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ کے برطرف سربراہ پروفیسر سعید اختر نے کہاہے کہ وہ دلبرداشتہ ہیں نہ مایوس بلکہ نئے جذبے کے ساتھ مخیر حضرات کے تعاون سے اسلام آباد میں غریبوں کیلئے پاکستان کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ کی طرز کاادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں جوریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سا تھ ساتھ ایسا ادارہ ہوگا جہاں جگر کی پیوندکاری سمیت دیگر اعضا کی منتقلی مفت کی جائے گی اسلام اور ریسرچ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہم نے ریسرچ کے حقیقی مآخذ سے ہدایت لینا چھوڑ دی ہے یہ باتیں انہوں نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی المنائی نارتھ امریکااور پاکستان چیپٹرز کے اشتراک سے منعقد ہونے والی بین الاقوامی ریسرچ کانفرنس سے خطاب کررہے تھے جس سے ان کے علاوہ پروفیسر رضا الرحمان ڈاکٹر بابر سعید خان،ڈاکٹر ثمینہ اسماعیل،ڈاکٹرشہاب اللہ،پروفیسر سمیر قریشی ڈاکٹر اعظم خان،ڈاکٹر راحت ناز اور جے ایس ایم یو المنائی پاکستان چیپٹر کے صدرپروفیسر مکرم علی اور امریکا چیپٹر کے صدر عرفان سلیمان نے بھی خطاب کیا جبکہ وائس چانسلر پروفیسرسید محمد طارق رفیع نے تحقیقی مقالے پیش کرنیوالے اسکالرز وطلبا کو شیلڈز اور اسناد دیں۔ پروفیسر سعید اختر نے کہاکہ پاکستان میں اعضا کی از سرنو تخلیق کرنے والی دواں اوراسٹیم سیل ٹیکنالوجی پر تحقیق درست سمت میں مستقل بنیادوں پرجاری رہے تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں ہمیں اعضا کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ ہم انسانی اعضاکی از سرنوتخلیق کرسکیں گے انہوں نے کہاکہ قرآن وحدیث ہدایت ورہنمائی کے ایسے مآخذ ہیں جو اپنے آغاز سے قیامت تک رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے ہم نے ان سے رہنمائی لینا چھوڑ دی ہے ہمارے مسلم سائنس دان اور محقق پہلے دینی علوم سیکھتے تھے اس کے بعد وہ نیچرل سائنسز اور بنیادی علوم میں ادرک حاصل کرتے تھے یہی ان کی کامیابی کی کنجی تھی ہماری ناکامی کی وجہ یہی ہے ہم دینی علوم سے بے بہرہ ہیں جبکہ اسلام مذہب ہی تحقیق کا ہے۔ایک سوال کے جواب میں پروفیسر سعید اختر نے کہا کہ جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان سے توہین آمیز سلوک کیا تو پاکستان سے باہر موجود ملک اور قوم سے ہمدردی رکھنے والے ماہرین میں مایوسی کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی کیونکہ وہ یہاں واپس آکر اپنی صلاحیتوں کے ذریعے ملک وقوم کو ترقی کی جانب آگے بڑھانا چاہتے تھیمگر اللہ کا شکر ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وہ چاہتے ہیں کہ خیرکا جذبہ رکھنیوالیپاکستانی نژاد جو دنیا کے دیگر ملکوں اہم کام سر انجام دے رہے ہیں اگر وہاں کے مقابلے میں کم پیسوں پر ہمارے یہاں آجائیں تو ہم بڑے بڑے کام کرسکتے ہیں انہوں نے بتایا کہ لاکھوں ڈالرز کی لاگت سے منگوائی گئی لیزرمشین کے متعلق جب ہم نیمقامی ماہرین سے مشورہ کیا تو معلوم ہواکہ کروڑں روپے کی یہ مشین ہم چند لاکھ روپے میں بناسکتے ہیں ذراسی تحقیق کی ضرورت ہے اسطرح ہم اپنا کس قدر سرمایہ بچاسکتے ہیں اس کا فائدہ ہمارے ملک کے غریب لوگوں کو ہوگا جو مہنگا ہونے کے باعث علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں بھی کئی ادارے بہتر انداز میں ٹرانسپلانٹ سرجری کررہے ہیں اگر ایسے اداروں میں ملک سے باہر کام کرنے والے ماہرین کو بلاکر کام کا موقع دیاجائے ہمارے مقامی طلبا کی تربیت بھی ہوجائے گی اورہم درست سمت میں آگے بھی بڑھیں گے انہوں نے کہاکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ،پاکستان کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ کو ایک عام سرکاری اسپتال کی طرز پر چلانا چاہتی ہے ان کی مرضی اجڑ گیا اک نشیمن تو کیا غم ہمارے لیے آسماں اور بھی ہیں۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق رفیع نے جے ایس ایم یو المنائی کی جانب سے ریسرچ کانفرنس کے اقدام کو سراہا اورطلبا پرزور دیا کہ امریکا سمیت دیگر ملکوں اور پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے اسکالرز کے لیکچرز سے سیکھیں اور اس علم کو انسانوں کی بھلائی کیلیے استعمال میں لائیں۔یادرہے کہ دوروزہ بین الاقوامی ریسرچ کانفرنس کا انعقاد سندھ میڈیکل کالج کے سابق طلبا کی تنظیم جے ایس ایم یو المنائی نے کیا تھا سندھ میڈیکل کالج کے طلبا دنیا کے مختلف ممالک میں اہم طبی خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ سال میں ایک مرتبہ دسمبر کے مہینے میں اپنی مادر علمی میں جمع ہوتے ہیں۔