حکومت اور اپوزیشن اپنا محاسبہ کریں 

حکومت اور اپوزیشن اپنا محاسبہ کریں 
حکومت اور اپوزیشن اپنا محاسبہ کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قوم کو تحریک انصاف کی حکومت سے جو توقعات تھیں،  وہ ان پر پورا نہیں اتری، حکومت اڑھائی سال بعد بھی اپنی نااہلی کو اپوزیشن پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی نااہلی کا رونا رو کر اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے سے ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے، ملک میں مہنگائی ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی ہے، عام آدمی کی گزر اوقات ناممکن ہو چکی ہے۔یوٹیلیٹی بلز میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، آٹا، گندم، چینی سمیت زرعی اجناس کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں،غریب آدمی میں تو مرغی کا انڈا بھی خریدنے کی طاقت نہیں رہی اور حکومت ہے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے کی بجائے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ کرپشن اور این آر او نہیں دونگا، کی گردان سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں اور اپوزیشن بھی سلیکٹیڈ کا رونا رو رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والی اس محاذ آرائی سے نقصان صرف غریبوں کا ہو رہا ہے، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اپوزیشن نے حکومت کو اڑھائی سال برداشت کیا، وہ اسے مزید اڑھائی سال برداشت کیوں نہیں کر پا رہی، اگر حکومت کارکردگی نہیں دکھائے گی تو عوام خود عام انتخابات میں اس کا تیا پانچا کر دیں گے۔ 


قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ ملک میں افراتفری کا جو عالم تھا وہ بعد کے کسی دور میں دکھائی نہیں دیتا، پاکستان کو بھارت نے اس کے حصے کی مشینری دی اور نہ ہی ادارے اس قابل تھے کہ وہ فوری فعال کردار ادا کر سکتے،اس  پر مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کی آبادکاری بھی تھی لیکن قائداعظمؒ کی بصیرت، دوراندیشی اور حکمت عملی کو سلام جنہوں نے ان مسائل کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ان چیلنجوں کا احسن طریقے سے مقابلہ کیا اور بہت ہی کم وقت میں ملک کو اپنے قدموں پر ہی کھڑا نہیں کیا بلکہ جس ملک کے متعلق کہا جا رہا تھا کہ یہ چند سال بھی نکال نہیں پائے گا اس نے ترقی اور خوشحالی کے جس سفر کا آغاز کیا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ (قائداعظم کو تو حکومت کرنے کا بھی کوئی تجربہ ہی نہیں تھا تحریک انصاف نے تو پھر پانچ سال خیبر پختونخوا میں حکومت کی ہے)۔ بعد ازاں سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک میں جو سیاسی ابتری تھی، اسے بھی احسن طریقے سے حل کیا گیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دور تاریخ پاکستان کا ایک سنہری دور ہے، بعد ازاں جمہوری ادوار میں جس حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی اس پاکستان مسلم لیگ (ق) کے دور حکومت کے عرصہ میں ملک نے ترقی کی جانب قدم بڑھائے۔


2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے،اس دور میں بھی ملک سیاسی ابتری کا شکار ہوا۔ مہنگائی عروج پر پہنچی،عام آدمی کی فلاح کے حوالے سے اقدامات نہیں کئے گئے، جس کا نقصان پیپلزپارٹی نے 2013ء کے انتخابات میں اٹھایا۔2013ء میں  پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی پانچ سالہ مدت جس طرح پوری کی، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی پارٹی اور تحریک انصاف دونوں اپوزیشن میں تھیں۔ملکی تاریخ میں حکومت کے خلاف طویل ترین دھرنا بھی تحریک انصاف نے دیا، اس 126 دن کے دھرنے میں عمران خان نے ایک دفعہ بھی نواز شریف پر کرپشن  کا کوئی الزام نہیں لگایا تھا اس عرصے میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو حکومت نہیں کرتے دی اس کے باوجود بھی حیرت انگیز طور پر ملک کی معاشی رفتار بہت بہتر تھی، مہنگائی کنٹرول میں تھی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ترین سطح پر تھیں، بجلی جو مسلم لیگ ن کی حکومت سے پہلے جانے کے بعد آنے کا نام نہیں لیتی تھی، 2018ء میں صورت یہ تھی کہ نیشنل گرڈ میں بجلی وافر مقدار میں تھی اور یوٹیلیٹی بلز کی قیمتیں بھی بتدریج کم ہو رہی تھیں۔ ملک میں ترقی کی رفتار کے اعشاریے بھی خوشحالی کی جانب گامزن تھے، لیکن آج حالت یہ ہے کہ ملک میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی ہو چکی ہے، ایسے میں وزیراعظم سمیت حکومتی زعماء  یہ دعوی کر رہے ہیں کہ معاشی اشاریئے بہتری کی جانب گامزن ہیں، حکومتی نااہلی کے سبب اپوزیشن کی احتجاجی تحریک روز بروز زور پکڑ رہی ہے۔ اپوزیشن کی کم عقلی پر رونا آتا ہے کہ اپنی احتجاجی تحریک میں حکومت کو ہدفِ تنقید بنانے کی بجائے، اس کے بیانات کا رخ قومی اداروں کی طرف ہے۔سیاسی جماعتوں کو اپنا  قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 


حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کے نتیجے میں ملک کمزور ہو رہا ہے، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو  ہی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے قومی مفاد میں اقدامات اٹھائے جائیں، حالات کو اس سطح پر نہ پہنچایا جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ قومی اداروں کو کسی بھی صورت ہدفِ تنقید بنانا دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مزید :

رائے -کالم -