محبت اور ہوس پرستی
نقارے بج رہے تھے،شہنائیاں گونج رہی تھیں، ڈھول کی ڈھم ڈھم پر نوجوان بھنگڑے ڈال رہے تھے اور پیچھے پیچھے اٹھکھیلیاں کرتے، ہنہناتے گھوڑے پر سوار دُلہا رِکاب میں پاؤں رکھے نیچے چھلانگ لگا رہا تھا۔ حویلی میں باراتیوں کے پہناوے کے شوخ رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ مختلف اقسام کے عِطر کی خوشبو سانسوں پر بھاری تھی۔ اس خوشبو رنگ،کِھل کِھلاتے منظر پر یک دم سنّاٹا چھا گیا، جب ہر شخص دوسرے کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔ ”سُنا ہے لڑکی نے ڈولی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے، اور کہتی ہے کہ مرجاؤں گی، مگر منصب دارکے سوا کسی کی ڈولی میں نہیں بیٹھوں گی“یہ سن کرسب کے چہروں پر جیسے اوس پڑ گئی ہو۔ والدین کے سر شرمندگی سے نِگُوں تھے، مگر دُلہا اور اس کے والدین نے،انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، لڑکی کے والدین کو شرمندگی سے بچانے کے لئے غصے اور نارضگی کا اظہار کیے بغیر واپسی کی راہ لی، اور اُسی دن اُسی گاؤں میں ہنگامی طور پر ایک گھر میں رشتہ طے کر کے دُلہن کو ساتھ لے گئے۔ اگلے روز منصب دارکی بارات نہایت تُزک واحتشام کے ساتھ جلوہ گر ہوئی اور پہلے دن والی انکاری دُلہن منصب دارکی ڈولی میں بیٹھ کر بیاہی گئی۔ شادی کے چند سال تکمیل ِ عہد و پیمانِ محبت اور جشن ِحصولِ کامیابی کے طور پر گزرے۔
دیکھتے ہی دیکھتے،پیار ہی پیار میں، پانچ بچے ہو گئے، لیکن جُوں جُوں وقت گزرتا گیا، آج اِس بات پر جھگڑا توکل اُس بات پر جھگڑا۔ آج یہ نہیں ہوا توکل وہ نہیں ہوا۔ میں نے تیرے لئے یہ کیا، تُو نے میرے لئے کیا کیا؟آج بیوی الگ عزیزوں کے ہاں خاوند کی شکایتوں کے بستے اٹھائے پھرتی ہے اور خاوندالگ اپنے ہم جولیوں اورتعلق داروں کے سامنے اپنی داستانِ مایوسی اور قصّہ”شب ِ دیجور“ سناتا پھرتا ہے۔ آج میاں بیوی کواور بیوی میاں کو دشمن سمجھتی ہے۔ میاں گھر میں با اَمرِ مجبوری کھانا کھانے کے لئے رُکتا ہے، کوئی لمحہ فالتو گزر جائے تو طعن و تشنیع کے تیر جگر کو پھاڑتے ہیں۔ بقول طرفین ”یہ زندگی ہے یا جہنم کَدہ ہے“گویا ”محبت‘ سے شروع ہونے والے سفر کو آج نفرت کی ارادہ قتل سے پہلے کی منزل درپیش ہے۔
مذکورہ میاں بیوی اِس میدانِ حِرس وطمعئ نَفسی میں تنہا نہیں،بلکہ ہمارے چار سُو ایسی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو،سوشل میڈیا پر تذلیل و تسکین ِ خواہش ِ نفسی کے دلفریب جال بکھرے پڑے ہیں۔ ویب سائیٹس اور یو ٹیوب چینلز بلامعاوضہ خواہشمندوں اور غیر خواہشمندوں، دونوں کودعوتِ عیش و سرور دے رہے ہیں۔نہ کوئی اخلاقی پابندی، نہ قانونی دسترس،نہ معاشرتی احساس و لحاظ، بس ایک مایوس کن، دِل شکن، حوصلہ پَست اور زُودِ رَنج سلسلہئ لا متناہی درپیش ہے،جو نہ جانے کہاں تک چلے۔
مان لیاسوشل میڈیا تو آزادپنچھی ہے، جس سمت چاہے اڑان بھرے، مگر ٹیلی ویژن کے تمام چینلز جو باقاعدہ حکومت کی عملداری میں آتے ہیں، اُن پر چلنے والے تفریحِ طبع کے تمام پروگرام، ماں باپ سے چوری، ”محبت“کے رشتے میں پیوند ہونے اور”محبت“ کے نام پرسادہ لَوح نفُوس کو پھنسانے کے گرد گھومتے ہیں۔اور تو اور، شادی شدہ سے ”رشتہ محبت“ قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،جس کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سوشل میڈیا پر”محبت“ کی رفتار وقت کی قید سے آزاد ہے۔علیک سلیک شروع ہونے کے ساتھ ہی نہ صرف مسکراہٹوں اور دیگر ہیجاناتی عکسوں کے باہمی تبادلے شروع ہو جاتے ہیں، بلکہ پہلے دن ہی ”پھیکی“ اور ”گہری تصویروں“ کے تبادلے، ویڈیو کالز اور اُن کالز کے اندر ”جلوؤں کا نور“ موبائل فون کی سکرین کو چکا چوند کر دیتا ہے۔
محبت کے نام پرآج شادی ہوتی ہے، کل طلاق ہو جاتی ہے۔ٹیلی ویژن، فلم اور میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمزپر کام کرنے والے احباب کی زندگیوں میں ذرا جھونکیں تومعلوم ہو گاکہ مرد توکُجا خواتین ہی میں پانچ اور اس سے زیادہ”محبت کی شادیاں“ملتی ہیں۔ذرا سوچئے!کیا ہم اسے ”محبت“ کہیں گے۔”بالکل بھی نہیں“ یہ لَسٹ (نفس پروری) ہے“ جومحض بدن کی تسکین مانگتی ہے۔ محبت تو روح کی تسکین سے پیوستہ ہے، لیکن موقع پرستوں اور ہوس کے پجاریوں نے لَسٹ کو محبت کا نام دے دیاہے۔ محبت چاہے خدا سے ہو یا اُس کے بندوں سے ہو، وہ خلوص مانگتی ہے، ثابت قدمی مانگتی ہے، قربانی مانگتی ہے، عاجزی مانگتی ہے، شکست قبول کرتی ہے، اور لَسٹ صرف لمحہ ئ تسکین بدن کے گرد گھومتی ہے۔
میرے ایک دیرنیہ دوست چند دن قبل ملنے آئے، جب بچوں اور بھابھی کی خیریت دریافت کی تو کہنے لگے،”آپ کی بھابھی نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے“۔یہ سُن کرمیرے پاؤں تلے سے زمین سِرک گئی کہ بیس سال کی ”محبت بھری“رفاقت،جس کی پیداوار جوان اولاد بھی ہے، کسی اور”محبت“ کی نظر ہوگئی۔
عصرِرنگ و بُو سے پہلے شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو سمجھتے سمجھاتے، جانتے، جنواتے، ادب و احترام میں سالہا سال گزاردیتے۔ اگر کوئی نا موافقت پیدا ہوجاتی تو بڑے بزرگ، بچوں کی محرومی کا حوالہ دے کریا سماجی سختیوں اور مجبوریوں کی نشاندہی کر کے معامالات کو سلجھا دیتے۔ بچوں کی اچھی تربیت ہوتی رہتی اور وقت خوبصورت انداز سے اپنا پہیہ ئ زندگی کے آخری موڑ پر لے آتا۔مگر تب ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے، جاننے جنوانے کا سفر جتنے عرصہ میں طے ہوتا تھا، آج وہ فاصلہ شادی سے پہلے طے ہو چکا ہوتا ہے۔ نتیجتاً شادی ہوتے ہی طرفین اطرافِ مخالف میں دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔بظاہر اس صورت ِ احوال سے نکلنا نا ممکن ہے، مگر سرکار کو آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے تعلیمی نظام کو اپنی اخلاقی، معاشرتی اور دینی روایات اور مزاج کے جوہرِ بے مثل سے منسلک کرنا چاہئے تاکہ خاندانی نظام کو ”محبت“ کے نام پر سَرپٹ دوڑتی شکست سے بچانے کاکچھ تو اہتمام ہو سکے۔