اخوت یونیورسٹی کے لیے…… ایک اینٹ
”اخوت“ اب ایک زندہ داستان بن چکی ہے اور اب آپ جانتے ہیں کہ داستان مبالغے، مافوق الفطرت کرداروں اور جادوئی فضا کا نام ہے، داستان سننے والا اس داستانوی فضا میں اتنا محو ہو جاتا ہے کہ خود کو بھی ایک مافوق الفطرت کردار سمجھنے لگتا ہے،لیکن ”اخوت“ ایک عجیب داستان ہے، جس کا مبالغہ بھی سچ لگتا ہے۔اس کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب ایک عام آدمی کی طرح جیتے اور چلتے پھرتے ہیں،لیکن مافوق الفطرت کردار کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور جب ڈاکٹر امجد ثاقب ”اخوت“ کے آغاز کا قصہ بیان کرتے ہیں تو سننے والے ایک جادوئی فضا میں پہنچ جاتے ہیں اور خود کو پتھر کا پیکر ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
چند روز قبل ڈاکٹر امجد ثاقب کی دعوت پر لاہور سے دور اور ضلع قصور کے نزدیک مصطفےٰ آباد (للیانی) کی نہر کے کنارے واقع ”اخوت“ کالج یونیورسٹی جانے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اگرچہ مجھے گھر سے لے جانے کے لیے سواری بھیج دی تھی، لیکن مَیں نے مناسب سمجھا کہ ان چار پہیوں پر سوار ہو جاؤں،جو مَیں نے اپنی حق حلال کی کمائی سے اپنے لیے خرید رکھے ہیں۔مجھے بائیسکل سے موٹر بائیک پر بٹھانے کا مشکل کام ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے2006ء میں اتنی آسانی سے کیا تھا کہ مَیں آج بھی انہیں دِل سے دُعائیں دیتا ہوں۔ ان کے دیئے ہوئے بلا سود قرض نے میری کمائی میں اتنی برکت ڈال دی کہ اب مَیں ایک(پرانی سہی) گاڑی کا مالک ہوں۔
”اخوت“ یونیورسٹی ڈاکٹر صاحب نے ایک ایک اینٹ جمع کر کے تعمیر کرائی ہے۔اس کے لیے انہوں نے حکومت سے ایک پائی بھی نہیں لی۔ انہوں نے دردِ دِل رکھنے والے اپنے دوست احباب کو دعوت دی کہ وہ ایک ہزار روپے کی ایک اینٹ خریدیں اور اخوت یونیورسٹی کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔بہت سے لوگوں نے یہ اینٹیں خریدیں اور اس بہترین ادارے کے دیوار و در و بام کھڑے ہو گئے،لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب بتاتے ہیں کہ راجن پور میں رہنے والی ایک بوڑھی عورت کی اینٹ ان کی نظر میں سب سے قیمتی ہے جو اس نے اپنی غربت کے باوجود پانچ سو روپے میں خریدی تھی۔ اس بوڑھی خاتون کی اس اینٹ میں اُس کے دِل کا سارا درد سمٹ آیا تھا۔
مَیں اخوت یونیورسٹی میں چونکہ پہلی دفعہ گیا تھا اس لیے اس کا ایک ایک کونا دیکھنا چاہتا تھا۔ حیرت نے یونیورسٹی کے دروازے ہی سے میری انگلی تھام لی تھی۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ، بلند و بالا شان دار عمارت،کشادہ لان، یونیفارم پہنے ہوئے مودب طلبہ اور اخوت کے سرگرم و مستعد کارکن، سب بہت بھلا لگ رہا تھا۔ ایک مَیں ہی نہیں، وہاں موجود سارے قلم کار غالباً پہلی دفعہ ہی آئے تھے۔سبھی حیران تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح بے سرو سامانی کے عالم میں یہ معرکہ بھی سر کر لیا تھا۔ فی الحال اخوت میں انٹر کی سطح کے ذہین لیکن غریب طلبہ تعلیم پاتے ہیں۔ ابھی اس کی ہزاروں اینٹیں برائے فروخت پڑی ہوئی ہیں۔ جب یہ اینٹیں بھی بک جائیں گی تو یہاں انشاء اللہ پی ایچ ڈی تک کی کلاسز ہوا کریں گی۔اس ادارے کو ڈاکٹر صاحب نے قومی یگانگت کا مظہر بنانے کی سچی کوشش کی ہے۔ یہاں بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور سندھ تک کے طلبہ پڑھ رہے ہیں۔”اخوت“ یونیورسٹی سے تو مَیں کب کا باہر نکل آیا تھا لیکن اس کی جادوئی فضا سے تاحال باہر نہیں نکلا۔اسی جادوئی فضا میں یہ دو شعر ہو گئے۔آپ بھی پڑھ لیجئے:
اک ایک اینٹ سے تعمیر کرتا جاؤں گا
مَیں اپنے خواب کو تعبیر کرتا جاؤں گا
کروں گا عام زمانے میں درد کی دولت
مَیں اپنے زخم کی تشہیر کرتا جاؤں گا
میری اس تحریر کو آپ ایک اینٹ ہی سمجھئے۔ میرے وہ پڑھنے والے جو دِل میں دوسروں کا درد رکھتے ہیں،لوگوں کے کام آنا چاہتے ہیں۔وہ ”اخوت“ سے اپنا تعلق رکھنے کی ضرور کوشش کریں۔
بڑا ہے درد کا رشتہ،یہ دِل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
ڈاکٹر امجد ثاقب نے آج سے20برس پہلے صرف دس ہزار روپوں سے ”اخوت“ کی بنیاد ڈالی تھی اور آج یہ 125 ارب روپے کی بلا سود سرمایہ کاری کرنے والا کامیاب نجی ادارہ ہے۔”اخوت“ سے قرض لینے والے تمام لوگ بروقت اپنا قرض واپس کرتے ہیں۔ہمارے ہاں کام کرنے والے بنک انہی لوگوں کو قرض دیتے ہیں، جن کے پاس پہلے سے بہت دولت موجود ہوتی ہے، لیکن ”اخوت“ صرف ان لوگوں کو قرض دیتی ہے جن کے پاس محنت کا ہنر، ایمان داری کا زر اور سچائی کا جوہر ہوتا ہے۔”اخوت“ کا ساتھ دے کر آپ بھی ڈاکٹر امجد ثاقب بن سکتے ہیں۔